آئین کی دستک دھتکارنے والے ججوں کی اب کیا اوقات ہے؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار اور مسلم لیگ نون کے سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ دنیا بھر کا مسلّمہ دستور ہے کہ ’’انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئے،ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہئے۔‘‘ ہمارے ہاں اس کے برعکس یہ نظریہ اپنالیا گیا کہ ’’ناانصافی ہونی ہی نہیں چاہئے، واضح اور غیرمبہم انداز میں ہوتی ہوئی دکھائی بھی دینی چاہئے۔‘‘ کوئی کیابگاڑ لے گا۔ مشرف کی بریّت اور پانامہ کیس اس کی بے مثل نظیریں ہیں۔

یہ مثالیں  قائم کرنیوالے اب قصّہ ماضی ہوچکے۔ وہ کہاں ہیں اور کیاکررہے ہیں؟ کسی کو اس کا سراغ لگانے کی فرصت ہے نہ ضرورت۔ وہ پورے قد کاٹھ کے ساتھ عوامی تقریبات میں بھی نہیں جا پاتے۔ اُنکے چہرے باطنی طمانیت کی شفق سے محروم ہوچکے ہیں. اپنے کالم  میں عرفان صدیقی لکھتے ہیں کہ جب عروج تھا تب یہ جج  آئین کی حُرمت، قانون کی عصمت اور اپنے منصب کی تقدیس کو ’’متروکہ املاک‘‘ قرار دیکر دوسروں پر آوازے کستے تھے۔ کبھی سسلین مافیا کی گالی دیتے، کبھی گاڈ فادر کا طعنہ۔ کبھی خدا کے لہجے میں بولتے ’’اپنے وزیراعظم کو بتا دو کہ اڈیالہ جیل میں ابھی بہت جگہ خالی ہے۔‘‘ یہ سب کچھ اس وزیراعظم کیلئے مخصوص تھا جو بائیس کروڑ عوام کا نمائندہ اور ریاست کے جمہوری تشخص کی علامت تھا۔ آئین کو توڑنے، من مانی عدالتیں بنانے اور مرضی کے فیصلے لینے والے ڈکٹیٹر کے بارے میں کبھی کوئی حرفِ ناروا ….  اِن قاضیانِ کرام کی زبان پر  نہ آیا. عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختون خواہ  میں انتخابات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران ، چیف جسٹس پاکستان  عمر عطا بندیال نے اَزخود نوٹس کے اہم ترین محرک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’آج آئینِ پاکستان نے خود ہمارے دروازے پر دستک دی ہے۔ ‘مقامِ شکر ہے کہ ہمارے زخم زخم آئین کا واسطہ ہماری آج کی عدالتِ عظمیٰ سے پڑا اور اُسکی پہلی دستک پر یوں دروازہ کھل گیا جیسے انصاف دروازے سے لگا کھڑا تھا۔ یہ پیش رفت بڑی اچھی ہے لیکن وہ جو فیض نے کہا تھا کہ ’’لوٹ جاتی ہے اُدھر کوبھی نظر کیاکیجئے‘‘

عرفان صدیقی لکھتے ہیں کہ  برسوں قبل گورنر جنرل غلام محمد کی رعونت اورا س وقت کی عدلیہ کی اطاعت  کے درمیان، دشت کا بگولا بنے آئین کا نام مولوی تمیز الدین تھا جو برقع اوڑھے رکشے میں بیٹھ کر بارگاہِ عدل تک پہنچا اور نامراد لوٹا تھا۔ 1956میں تشکیل پانے والے پہلے آئین کو،پہلے پاکستانی سپہ سالار نے اٹھا کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ وہ گرتا پڑتا، کپڑے جھاڑتا عدالت تک پہنچا۔دستک دی۔دروازہ کھُلا اور اُسے ہٹّا کٹّا بھکاری سمجھ کر دھتکار دیا گیا۔ 1969ء میں ایک تازہ دَم ڈکٹیٹر نے یلغار کی اور آئین کے سینے میں خنجر گھونپ دیا۔وہ بصد مشکل اپنی انتڑیاں سمیٹے بارگاہِ عدل تک پہنچا تو اُسے بتایاگیا کہ انقلاب آچکا ہے جو بَرحق ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت اسے مردہ قرار دے کر سردخانے میں پھینک دیا گیا اور آئین بنانے والا پھانسی کا سزاوار ٹھہرا۔1999ء میں ایک کمانڈو کونوکری سے نکالا گیا تو پہلے سے تیار منصوبے کے مطابق اُس نے ملک پر قبضہ کرلیا۔ آئین نے عدالت کے دروازے پر دستک دی۔ جسٹس سعیدالزماں صدیقی نے دروازے کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو آمر کو غصّہ آگیا۔ ایک پی سی او جاری ہوا. سعیدالزماں صدیقی پانچ دوسرے خودسَر رفقا سمیت گھر چلے گئے۔ ارشاد حسن خان نے آئینی حلف سے دستکش ہوکر آمر سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ سب سے اونچی مسندِ انصاف پر جلوہ افروز ہوئے۔ آئین کو دھکے دے کر باہر نکالا اور شاہانہ انداز سے  ڈکٹیٹر سے مخاطب ہوئے۔ ’’جائو اپنی مرضی کا آئین خود بنالو۔‘‘ اسکے بعد کتنے ہی فیصلے آئے اور آتے چلے گئے جو آئین کی پشت پر فولادی کوڑوں کی طرح برستے اور اُس کی کھال ادھیڑتے رہے۔

آخر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ  آئین کی دستک پر عدل گاہ کا دروازہ کھلنے کا اوّلیں تقاضا یہ ہے کہ آئین کی روح اور انصاف کے ازلی وابدی اصولوں کو بھی مدّنظر رکھا جائے جو ہر آن، دل، دماغ اور ضمیر کے دروازے پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ انصاف ہو، ہوتا ہوا نظر بھی آئے .  حتمی فیصلہ صادر ہونے کے بعدجب آئین دروازہ کھول کر باہر جانے لگے تو اُس کے ماتھے پر تذلیل وندامت کے قطرے نہ ہوں، ہونٹوں پر سدا بہار ملکوتی مسکراہٹ لَو دے رہی ہو۔

خیبر پختونخواہ کے بزدار اور فرح گوگی کون ہیں

Related Articles

Back to top button