عاصم باجوہ کی سی پیک چیئرمین شپ خطرے میں

بیرون ملک اربوں روپے کی جائیدادیں بنانے کے الزام کے باوجود بطور چئیرمین سی پیک اتھارٹی برقرار رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کی چیئرمین شپ ایک بار پھر خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ انکی تقرری کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان سے پاکستان بار کونسل کے رکن منیر کاکڑ نے بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کو ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت اکتوبر 2019 میں چئیرمین سی پیک اتھارٹی تعینات کیا گیا تھا۔ انکا۔کہنا تھا چونکہ صدارتی آرڈیننس کی معیاد 120 دن ہوتی ہے، لہذا اب عاصم سلیم باجوہ چیئرمین کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے چونکہ آرڈیننس کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔
منیر کاکڑ نے عدالت کو بتایا کہ کرپشن الزامات کے باوجود عاصم باجوہ کو چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے پر برقرار رکھنے کے لئے حکومت نے قومی اسمبلی سے آرڈیننس میں توسیع کا بل پاس کروایا جو اب تک سینیٹ میں زیر التوا ہے، لہازا عاصم سلیم باجوہ کی فروری 2020 سے تاحال بطور چئیرمین سی پیک اتھارٹی تعیناتی غیر آئینی قرار دی جائے۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے منیر کاکڑ کی درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے ہیں اور کیس کی آئندہ سماعت 3 جون کو مقرر۔کر دیی ہے۔ 20 مئی کو اس اہم کیس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران خان ملاخیل پر مشتمل ڈویژنل بیج نے کی۔
کیس کی سماعت کے دوران منیر کاکڑ نے موقف اختیار کیا کہ سی پیک اتھارٹی کو جس صدارتی آرڈیننس کے تحت قانونی تحفظ حاصل تھا وہ ختم ہو چکا ہے اور تکنیکی طور پر یہ اتھارٹی بھی ختم ہو چکی ہے۔ لہازا عاصم باجوہ اب بطور چیئرمین کسی قانونی مینڈیٹ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ منیر کاکڑ کا موقف تھا کہ ویسے بھی اس طرح کی اتھارٹیاں اصولی طور پر پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے قائم کی جاتی ہیں اور اتھارٹیز کے قیام کیلئے انتظامی ہدایت نامے جاری نہیں کیے جاتے جیسا کہ ماضی میں سی پیک اتھارٹی بناتے وقت کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتیں پچھلے کئی ماہ سے عاصم باجوہ کے خلاف نیب تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے تو یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ عاصم باجوہ سے بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی استعفی لیا جائے کیونکہ بیرون ملک اربوں کے اثاثے رکھنے کے الزام کے بعد سی پیک جیسے اہم قومی ادارے کی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے پہلے عاصم باجوہ کو صدارتی آرڈیننس کا قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے چیئرمین سی پیک اتھارٹی لگایا گیا تھا جس کی معیاد ختم ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے ایک توسیعی بل پاس کروایا گیا جو ابھی تک سینٹ میں زیر التواء ہے لہذا قانونی طور پر عاصم باجوہ اس وقت چیئرمین سی پیک اتھارٹی نہیں۔
سی پیک سے وابستہ ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ عاصم باجوہ کو چیئرمین سی پیک اتھارٹی لگانے کیلئے جو قانونی آلہ استعمال کیا گیا وہ اب ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ان کا تقرر جائز نہیں اور وہ کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں سی پیک اتھارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر سرکاری عہدیدار کو اس وقت شرمندہ ہونا پڑا اور پچھلی نشست پر بیٹھنا پڑا جب سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی معیاد مکمل ہونے کے بعد سی پیک پر پارلیمانی کمیٹی کے ارکان نے ایک اجلاس میں انکی شرکت پر اعتراض کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ستمبر 2020 میں عاصم سلیم باجوہ نے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کے عہدے سے استعفی دے دیا تھا جس کو وزیرِ اعظم نے قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر 12 اکتوبر 2020 کو باجوہ سے استعفی لے لیا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی کے چییرمین کے طور پر انھوں نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ باجوہ کا یہ فیصلہ صحافی احمد نورانی کی اگست 2020 میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں ان پر مبینہ طور پر دنیا بھر میں مختلف اثاثوں کے بارے میں تفصیلات ظاہر نہ کرنے کے الزامات کے بعد سامنے آیا۔
یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے آتے ہی سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تا کہ اس کے ذریعے سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کو معینہ مدت میں یقینی بنایا جا سکے۔ اس اتھارٹی کا بنیادی کام فیسلیٹیشن، کوآرڈینیشن اور مانیٹرنگ ہے۔ واضح رہے کہ چین کے ساتھ پاکستان نے سی پیک معاہدہ مسلم لیگ نواز کی گزشتہ دورِ حکومت میں کیا تھا۔ مگر سی پیک اتھارٹی جیسے ادارے کو ان معاہدوں کی نگرانی نہیں دی گئی تھی۔

Related Articles

Back to top button