اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کیوں کیا؟

کسی بھی صورت آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر نہ کرنے کے دعوے کرنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بالآخر عالمی مالیاتی فنڈ کے سامنے دو زانو ہوتے ہوئے ڈالر سے مصنوعی کیپ ختم کرنے سمیت اس کی تمام کڑی شرائط تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ قرض کی اگلی قسط دستیاب ہو سکے۔ حکومت نے ڈالر کی قیمت پر لگایا جانے والا کیپ ختم کردیا ہے جس کے بعد اس کی قیمت 153 سے 155 روپے کے درمیان مقرر کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی کے بعد ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی جانب سے ڈالر کی قیمتوں کو مستحکم رکھا گیا تھا جبکہ حکومت کی طرف سے بھی انٹر بینک ڈالر ریٹ کو مستحکم رکھا جا رہا تھا تاکہ مارکیٹ میں افراتفری کی صورتحال پر قابو رکھا جا سکے۔ ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا مقصد ڈالر کی بلیک مارکیٹ، انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں موجود ڈالر کی قیمتوں میں فرق کو ختم کرنا ہے۔
24 جنوری کی رات پاکستان کی فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے اعلان کیا تھا کہ ’ڈالر کی قیمت پر لگایا گیا کیپ منفی ثابت ہوا ہے اور اس سے ڈالر کا ریٹ کم ہونے کے بجائے مزید اوپر چلا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں ’ایک بلیک مارکیٹ وجود میں آئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں افراتفری تھی اور ایکسچینج کمپنیوں کی بدنامی ہو رہی تھی۔ واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تعیناتی کے فوراً بعد یہ بیان دیا تھا کہ ڈالر کا اصل ریٹ دو سو روپے سے کم ہے اور آئندہ چند روز میں پاکستان میں ڈالر اپنی اصل سطح یعنی 200 روپے تک آ جائے گا۔ تاہم ان کا اس وقت یہ کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ پاکستان کی فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے کہا کہ یہ کیپ حکومت اور ملک کے مفاد میں لگایا گیا تھا مگر اب ایکسچینج کمپنیوں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ یہ کیپ ختم کر دیا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر کہیں سے نہیں مل رہا کیونکہ اس کی کمی ہے، جبکہ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ڈالرز پہلے امپورٹرز کو دیے جائیں، چنانچہ غیر ملکی پاکستانیوں کی جتنی بھی ترسیلاتِ زر آ رہی ہیں، وہ سب انٹر بینک مارکیٹ کو دی جا رہی ہیں جبکہ پہلے ان کے مطابق وہ 80 فیصد عوام کو اور 20 فیصد بینکوں کو دیتے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’سٹیٹ بینک کا یہ خیال تھا کہ لوگ ڈالر فروخت کریں گے لیکن کوئی فروخت نہیں کر رہا بلکہ صرف خریداری کی جا رہی ہے۔ اُنھوں نے اُمید ظاہر کی کہ جوں ہی لوگوں کو ڈالر ملنا شروع ہو گا تو اس کا ریٹ نیچے آئے گا۔
ڈالر پر عائد مصنوعی کیپ ختم ہونے کے بعد 25 جنوری کے روز مارکیٹ میں ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت 252 روپے تک پہنچ چکی تھی جس کے بعد حکومت نے اس کا سرکاری ریٹ 253 سے 255 روپے مقرر کردیا۔
بدھ کے روز ٹریڈنگ کے آغاز پر ملک میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 12 روپے کا اضافہ ہوا ہے اور یہ اس وقت 252 روپے پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔ ملک بوستان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ درست سمت میں ایک قدم ہے کیونکہ اس سے منی مارکیٹ میں حوالہ ہنڈی میں کمی آئے گی اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ کے فرق میں کمی آئے گی۔ اب اس حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد کیا وہ لوگ جنھوں نے ڈالرز ذخیرہ کر رکھے ہیں، اپنے ڈالر فروخت کریں گے؟ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ کچھ حد تک ڈالرز کی خرید و فروخت ہو لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہو گی کیونکہ اس وقت ملک میں جو غیر یقینی کی صورتحال ہے وہ ایکسچینج ریٹ سے بالا ہے اور جب تک آئی ایم ایف سے مذاکرات طے نہیں پاتے اور وہ امداد جاری نہیں کرتے تب تک ایسی صورتحال رہے گی۔ کیونکہ ان لوگوں کے خیال میں ملکی معیشت کمزور ہے۔ ایک جانب جہاں ملک بوستان کو امید ہے کہ بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت کم ہو گی وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس اندیشے کا بھی اظہار کیا گیا کہ معاملہ الٹ بھی ہوسکتاہے۔
شہباز تاثیر کے اغواء اور رہائی کی کہانی، ان کی اپنی زبانی