جیل بھرو تحریک نے پی ٹی آئی کی ہوا کیسے نکالی؟

پنجاب کی نگران حکومت کی جارحانہ حکمت عملی نے عمران خان کی جیل بھرو تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ کل تک گرفتاریوں اور جیلیں بھرنے کے بلند وبانگ دعوے کرنے والےاب اعلانات کے باوجود گرفتاریاں دینے سے انکاری ہیں۔ دوسری طرف سیاسی سٹنٹ کے طور پر گرفتاریاں دینے والے اپنی غلطیوں پر نہ صرف پچھتا رہے ہیں بلکہ نام نہاد انقلابیوں کی طرف سے عدالتوں میں ضمانتوں کیلئے درخواستوں پر درخواستیں دائر کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اپنی گرفتاری سے خوفزدہ عمران خان کھ اعلان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک جاری ہے۔ 22فروری بدھ کے روز جب تحریک کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کی جانب سے رضاکارانہ گرفتاریوں کے حوالے سے مختلف طرح کے موقف سامنے آتے رہے۔کچھ رہنما ان گرفتاریوں کو تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور کارکنوں کی بہادری سے تعبیر کرتے دکھائی دیے تو کچھ نے اسے انسانی حقوق کی پامالی سے تعبیر کیا۔بدھ 22 فروری کو جب صبح 11 بجے لاہور سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا تو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ ’عمران خان نے انہیں گرفتاری دینے سے منع کر دیا ہے۔‘اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ لیڈرشپ کا جیل سے باہر رہنا ضروری ہے تاکہ تحریک کو کامیاب بنایا جا سکے۔اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے 200 کارکنوں اور پانچ رہنماؤں کی فہرست مرتب کی گئی جنہوں نے ابتدائی مرحلے پر چیئرنگ کراس پر گرفتاری دینا تھی۔

بدھ کی شام تک صورت حال بدل گئی اور لاہور چیئرنگ کراس پر موجود تحریک انصاف کے اکثر رہنما قیدیوں کی گاڑی میں پائے گئے جس کی تصویر خود تحریک انصاف نے جاری کی۔ پریزن وین کی چھت کارکنوں سے بھری ہوئی تھی۔تاہم قیدیوں کی گاڑی جیسے ہی جیل کے اندرونی دروازے پر پہنچی عمرانڈوز کی اکثریت منت سماجت کر کے وہاں سے غائب ہو گئی اور رہنماؤں سمیت صرف 81 یوتھیے ہی ثابت قدم رہے۔یہاں دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پارٹی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور دیگر نے بیانات جاری کیے کہ تحریک انصاف کی لیڈرشپ نے کمال بہادری سے گرفتاری دی اور کارکنوں نے ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا۔حکومت کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق ’پی ٹی آئی کے 81 اراکین نے مرضی سے گرفتاریاں دیں جن کو اب پنجاب کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے۔

جمعرات کو صورت حال بالکل ہی مختلف دکھائی دی جب شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی اور بیٹی ماہ نور قریشی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی کہ ان کے والد کو حکومت نے غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے۔اس کے تھوڑی دیر بعد ہی سینیٹر ولید اقبال کی اہلیہ نے بھی عدالت میں اپنے شوہر کی جبری گرفتاری کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ان دو درخواستوں کے بعد پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے فوکل پرسن اعجاز چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے 9 رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کردی۔مجموعی طور پر ان درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے، عدالت ان کی فوری بازیابی کا حکم دے۔یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ گرفتار رہنماؤں سے ملاقات نہیں کرنے دی جارہی اور ان تک ادویات اور کھانا بھی نہیں پہنچانے دیا جا رہا۔ جیل بھرو تحریک کے دوران پارٹی رہنماؤں کی ضمانتوں کی درخواستوں نے سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی حیران کر دیا ہے کہ یہ کیسی تحریک ہے جس میں پارٹی قائد عمران خان نے تو پہلے ہی گرفتاری سے بچنے کیلئے عدالتوں سے ضمانتیں لے رکھی ہیں۔ کارکن جیل میں ہیں جبکہ ان کے ساتھ قید پارٹی قیادت ایک دن بھی جیل کی صعوبتیں برداشت نہیں کر سکی اور مرضی سے دی گئی گرفتاریوں کو جبری گرفتاریوں میں تبدیل کر کے ضمانتوں کیلئے کوشاں ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا درخواستیں دائر کر کےتحریک انصاف اب اپنے رہنماؤں کو جیل سے باہر نکلوانا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جیل بھرو تحریک کے کنوینر اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے رہنماؤں کی رہائی نہیں چاہتے اور نہ ہی اس کے لیے تگ و دو کررہے ہیں۔‘’ہمارا ہائی کورٹ جانے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جائے۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پولیس ہمیں یہ بتائے کہ ہماری قیادت اور رہنماؤں کو کہاں رکھا گیا ہے ان سے ملاقاتیں کرنا ہمارا قانونی حق ہے۔ اسی طرح اس بات کا پتا لگانا بھی جرم نہیں کہ ان پر بنائے گئے مقدمات کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ کیا جائے۔

دوسری طرف پنجاب حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا کہ ’لاہور کی ضلعی حکومت نے گرفتار 77 کارکنوں اور رہنماؤں پر نقضِ امن پیدا کرنے کے جرم میں 16 ایم پی او کے قانون کا نفاذ کیا ہے۔‘’جیل میں ان لوگوں کو کتنا عرصہ رکھنا ہے اس کا فیصلہ پنجاب کی وزرات داخلہ کرے گی۔ یہ قید 30 سے 90 دن تک ہو سکتی ہے۔

خط میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 دو کے تحت الیکشن کا پروگرام جاری کرے اور چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں لہٰذا سیکشن 57 ایک کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

صدر عارف علوی نے لکھا تھا کہ آئین کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے، آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا لہٰذا آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے، الیکشن کمیشن بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا، دونوں آئینی دفاتر اردو کی پرانی مثل ’پہلے آپ نہیں، پہلے آپ‘ کی طرح گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈال رہے ہیں، اس طرزِ عمل سے تاخیر اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ 12 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے سمری پر دستخط کر دیے تھے۔وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کی جانب سے گورنر پنجاب کو جاری مختصر ایڈوائس میں کہا گیا تھا کہ ’میں پرویز الہٰی، وزیراعلیٰ پنجاب، آپ کو ایڈوائس کر رہا ہوں کہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی تحلیل کردیں۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے ارسال کی گئی سمری پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے بعد صوبائی اسمبلی 48 گھنٹوں میں از خود تحلیل ہوگئی تھی۔

بعدازاں 18 جنوری کو گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے سے متعلق ارسال کی گئی سمری پر دستخط کیے تھے۔گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے وزیر اعلیٰ محمود خان اور قائد حزب اختلاف اکرم خان درانی کو ارسال کیے گئے اسمبلی تحلیل کرنے کے نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ خیبرپختونکوا اسمبلی اور صوبائی کابینہ کو آئین کے آرٹیکل 112 کی شق ون کے تحت فوری طور پر تحلیل کردیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے آئین کے آرٹیکل 112 (1) کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری 17 جنوری کو گورنر کو ارسال کی تھی۔دونوں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔پی ٹی آئی نے 27 جنوری کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تاریخ کا فوری اعلان کرنے کا حکم دیا تھا۔جسٹس جواد حسن نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے اور اسی لیے الیکشن کا شیڈول فوری طور پر جاری کردیا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ صوبے کے آئینی سربراہ گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نوٹی فکیشن کے ساتھ فوری کرے اور یقینی بنائے کہ انتخابات آئین کی روح کے مطابق 90 روز میں ہوں۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن سے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات کے لیے مشاورت کی تھی تاہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا تھا۔اجلاس کے بعد سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا تھا کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔گورنر پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل دائر کی تھی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی تھی۔

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے آج الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنر خیبر پختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا حکم دینے سے متعلق درخواستوں پر ای سی پی سے الیکشن شیڈول طلب کرلیا تھا۔جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ نے 18 جنوری کو تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر کے خلاف 2 درخواستوں پر سماعت کی تھی۔سماعت کے دوران جسٹس ارشد علی نے کہا تھا کہ اب تو صدر مملکت نے تاریخ دی ہے، دو تاریخیں تو نہیں ہوسکتیں، اب ہم الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ اب کیا ہوگا۔

PTIکا آڈیو لیکس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے عدالت سے رجوع

Related Articles

Back to top button