عامر میر کے خلاف FIR: بھونڈے الزامات سامنے آ گئے


وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ نے جن الزامات کی بنیاد پر سینئر صحافی اور گوگلی نیوز کے سی ای او عامر میر کو گرفتار کیا تھا، اسکی ایف آئی آر میں ایسے ویڈیو پیکجز کو بنیاد بنایا گیا ہے، جن میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، خواتین پر مظالم اور میڈیا کی آواز دبانے کی حکومتی اور ریاستی کوششوں کی مذمت کی گئی ہے۔ گوگلی نیوز نے عامر میر کے خلاف درج ایف آئی آر کی جو کاپی حاصل کی ہے، اس میں پاکستان پینل کوڈ کی مختلف قابل ضمانت اور ناقابل ضمانت دفعات لگائی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ سات اگست کو ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائم سیل نے عامر میر کو بغیر کوئی پیشگی نوٹس دیے اور وارنٹ دکھائے تب اغوا کر لیا تھا جب وہ اپنے گھر سے آفس جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ تاہم بعد ازاں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
ضمانت پر رہائی کے بعد ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل نے 7 اگست کو جو پریس ریلیز جاری کی اس کے مطابق عامر میر اور یوٹیوبر عمران شفقت کے خلاف ابھی تفتیش جاری ہے اور ان پر لگائے گے الزامات کے مزید ثبوت اکٹھے کرکے چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ تاہم ایف آئی اے کی حراست میں اپنے خلاف درج ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات کا جواب دیتےہوئے عامر میر نے اپنے تحریری بیان میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں جن الزامات پر گرفتار کیا گیا، وہ بیہودہ اور بے بنیاد ہیں۔ ایف آئی اے کو جمع کروائے گئے تحریری بیان میں عامر میر نے کہا کہ میرے صحافتی مشن کا بنیادی مقصد پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کا تحفظ ہے اور میں اس عزم کا اعادہ کرتا ہوں کہ پاکستان کی بقاء اور عوام کے حقوق کے تحفظ کی یہ جنگ مستقبل میں بھی اسی جذبے سے جاری رکھوں گا۔
دوسری جانب عامر میر کو ایف آئی اے کی جانب سے ضمانت پر رہا کیے جانے کے باوجود دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ان سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ضبط شدہ موبائل فونز کے پاس ورڈز ایف آئی اے کو فراہم کریں ورنہ ان کے خلاف دوبارہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایف آئی اے نے 7 اگست کو عامر میر اور عمران شفقت کو گرفتار کرنے اور بعد ازاں انکی ضمانت پر رہائی کے بعد جو پریس ریلیز جاری کی اس کے متن کے مطابق آج مورخہ 07-08-2021 ملزم عمران شفقت اور عامر میر کو بالترتیب ایف آئی آر نمبران 127/2021 اور 128/2021 پیکا ایکٹ کی دفعہ 11، 13، 20، 24 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 505، 500 ،469 اور 509 کے تحت گرفتار کیا گیا۔ ان دونوں ملزمان کے خلاف مقدمات اعلیٰ عدالتی ججوں، پاک فوج اور خواتین سے متعلق تضحیک آمیز رویہ رکھنے پر درج کئے گئے۔ یوٹیوب پر چلنے والے گوگلی نیوز اور ٹیلنگز نامی چینلز پر ایسے پروگرام نشر کیے گئے جن سے قومی سلامتی کے اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کی بنیادوں کو کمزور کر کے ان پر عوام کا اعتماد ختم کیا جا سکے۔ مزید برآں خواتین کے ساتھ بھی تضحیک آمیز رویہ رکھا گیا۔ دونوں ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے تاہم تفتیش جارہی ہے اور آئندہ ملزمان کے خلاف مزید ثبوت اکٹھا کرکے چالان عدالت میں جمع کروایا جائے گا۔
دوسری جانب ایف آئی اے کے سائبر کرائم سکل لاہور سرکل کے ایس ایچ او کی جانب سے عامر میر کے خلاف درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان کے گوگلی نیوز یوٹیوب چینل نے پاکستان کے قومی اداروں کو کمزور کرنے اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد متزلزل کرنے کی غرض سے ایک باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ ایف آئی آر میں الزام ہے کہ عامر میر عدلیہ، فوج اور خفیہ ایجنسیوں جیسے معتبر قومی اداروں کی کردار کشی کر کے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔ یہ بھی الزام ہے کہ اداروں کے خلاف اس طرح کی پروپیگنڈا مہم سے پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑنے کا امکان ہے۔ تاہم عامر میر کے خلاف درج کردہ ایف آئی آر کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں ایسے ویڈیو پیکجز کو ان کی گرفتاری کی بنیاد بنایا گیا جن میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، خواتین پر مظالم اور میڈیا پر ریاستی پابندیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی آر میں گوگلی نیوز کی جن ویڈیو پیکجز کو بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے ان میں نہ تو فوج اور نہ ہی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے کوئی ایسا پیکج موجود سے موجود ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ان اداروں کی تضحیک کی گئی ہے۔ عامر میر کے خلاف ایف آئی آر میں سب سے پہلے جس ویڈیو پیکج کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ خاتون اول کے بارے میں ہے جس کا ٹائٹل ہے: کیا بشری بی بی واقعی جادو ٹونے کرتی ہیں؟دوسرے پیکج کا عنوان ہے: آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بھی بشریٰ بی بی کی چوائس نکلا۔ ایک اور پیکیج کا عنوان ہے پاکستانی جیلوں میں خواتین کا استحصال جاری۔ایف آئی آر میں درج ایک اور پیکیج کا ٹائٹل ہے: کیا پاکستان مخالف تحریک طالبان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے؟
عامر میر کے خلاف درج ایف آئی آر میں شکایت کنندہ ایک نامعلوم شخص عثمان زبیری ہے جو اسلام پورہ لاہور کا رہائشی بتایا گیا ہے۔ اس نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ قومی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانے والے عامر میر کو گرفتار کر کے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
عامر میر پر پاک فوج کو بدنام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے جن ویڈیو پیکیجز کا ایف آئی آر میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے دو پیکجز حال ہی میں برطرف ہونے والے سی پیک اتھارٹی کے ریٹائیرڈ چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے حوالے سے ہیں۔ یہ وہی عاصم باجوہ ہیں جن پر ماضی قریب میں بیرون ملک اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ عاصم سلیم باجوہ کے حوالے سے ایف آئی آر میں درج ویڈیو پیکجز کے عنوانات یوں ہیں: کیا عاصم سلیم باجوہ کو چین کے دباؤ پر فارغ کیا گیا؟ فارغ ہونے والے عاصم سلیم باجوہ پر کیا الزامات تھے؟
اس کے علاوہ ایف آئی آر میں درج ایک پیکج سنیئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی کی ویڈیو ہے، جس کا عنوان ہے: آزاد کشمیر آئی ایس آئی کا افسر ملٹری انٹیلیجنس کی انکوائری پر فارغ ہوا۔ پشتون تحفظ موومنٹ یعنی پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی ایک تقریر کو بھی ایف آئی آر کی بنیاد بنایا گیا ہے جس کا عنوان ہے: کیا فوج میں احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں؟
اسکے علاوہ ایک پیکج کا عنوان ہے: ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے مراد سعید کو چارج شیٹ کر دیا۔ عامر میر کے خلاف درج ایف آئی آر میں آرمی چیف کے حوالے سے بھی ایک ویڈیو پیکج کا ذکر کیا گیا ہے جسکا عنوان ہے: کیا جنرل باجوہ کو ایک بار پھر ایکسٹینشن مل جائے گی؟
ایف آئی آر میں اعلی عدلیہ کی تضحیک کا الزام لگاتے ہوئے جس ویڈیو پیکج کو بنیاد بنایا گیا ہے اس کا عنوان ہے: لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس امیر بھٹی کن لوگوں کی گڈ بکس میں ہیں؟
انگریزی میں لکھی گئی اس ایف آئی آر میں مذکورہ ویڈیو پیکج کے کچھ جملوں کا اردو ٹرانسکرپٹ بھی شامل کیا گیا ہے اور جو قابل اعتراض جملہ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے: یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس امیر بھٹی اس بینچ میں شامل تھے، جس نے مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
علاوہ ازیں مذکورہ ویڈیو پیکج کے اس جملے کو بھی ایف آئی آر کی بنیاد بنایا گیا ہے جس میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ و احتساب امور بیرسٹر مرزا شہزاد اکبر کی چیف جسٹس امیر بھٹی سے لاہور ہائی کورٹ میں ان کے چیمبر میں ایک ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق سائبر کرائم سرکل لاہور کے ایس ایچ او فخر عباس نے ان الزامات کی بنیاد پر عامر میر کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد انہیں 7 اگست کو گھر سے دفتر جاتے ہوئے وارنٹ دکھائے بغیر زبردستی اغوا کر لیا گیا۔ عامر میر سے ان کا لیپ ٹاپ اور دو موبائل فون بھی چھین لیے گئے۔ لیکن گرفتاری کے بعد عامر میر نے ایف آئی آر میں درج الزامات کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا کہ گوگلی نیوز کے جن ویڈیو پیکجز کو میری گرفتاری کی بنیاد بتایا گیا ہے، وہ تمام تر صحافتی اصولوں کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے اور ان میں سے کسی ایک پیکیج میں بھی فوج، خفیہ اداروں، عدلیہ اور خواتین کی تضحیک کا کوئی پہلو موجود نہیں اور یہ تمام پیکجز حقائق کی بنیاد پر بنائے گے۔ انکا کہنا ہے کہ مجھے گرفتار کرنے کا بنیادی مقصد ہراساں کرکے ڈرانا اور دھمکانا تھا جس کے بعد مجھ پر ایک معافی نامہ لکھنے کے لیے بھرپور دباؤ ڈالا گیا جس سے میں نے انکار کردیا۔ عامر میر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کو اپنا مؤقف دیتے ہوئے واضح الفاظ میں بتایا کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا بنیادی مقصد ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنا ہے جو پاکستان اور اسکے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور وہ اپنا یہ مشن بلا خوف وخطر جاری رکھیں گے۔
عامر میر کا کہنا ہے کہ ان کی ضمانت پر رہائی کے باوجود انہیں مسلسل ڈرایا دھمکایا جارہا ہے اور پیغامات دیے جارہے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے ضبط شدہ موبائل فونز کے پاس ورڈز ایف آئی اے حکام کو فراہم نہ کیے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ایف آئی اے اسلام آباد کی سائبر کرائم ونگ ان کے خلاف چار کیسز فائل کر چکی ہے لیکن ہر مرتبہ انہیں نوٹس دے کر اسلام آباد بلایا گیا جہاں انہوں نے اپنا تحریری اور زبانی موقف جمع کروایا۔ لیکن اس مرتبہ انہیں بغیر کوئی نوٹس اور اطلاع دیے ایک نئے کیس میں سڑک سے گرفتار کر لیا گیا۔ عامر میر نے کہا کہ وہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے مین سٹریم میڈیا صرف اس وجہ سے چھوڑا تھا کہ اسے ریاستی اداروں نے ہائبرڈ کپتان حکومت کے ساتھ مل کر یرغمال بنا لیا ہے۔ عامر میر نے کہا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر گوگلی نیوز اس عزم سے شروع کیا تھا کہ وہ کسی جبر کے بغیر آزادانہ صحافت کر سکیں، لیکن ریاست اور حکومت نے یہاں بھی ان کے مشن کے راستے میں روڑے اٹکانا شروع کردیے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ خوفزدہ ہونے کی بجائے جمہوریت، عوام کے آئینی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کی جنگ جاری رکھیں گے۔ عامر میر نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ دھونس یا دباؤ اور دھمکیاں انہیں ان کے مشن سے نہیں ہٹا سکتیں۔
عامر میر نے مزید کہا کہ میں پاکستان سے بے پناہ محبت کرتا ہوں اور میری حب الوطنی پر کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی وہ کسی ادارے کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ ان کے حب الوطن ہونے کا فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ میں ایف آئی کو آگے لگانے والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آزاد میڈیا کی آواز دبانا بند کردیں کیونکہ آزاد میڈیا قوم کا اجتماعی شعور ہوتا ہے جسکے بغیر قومیں زوال کا شکار یو جاتی ہیں۔

Related Articles

Back to top button