لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو پشاور کور سے کیوں ہٹایا گیا؟

پاک فوج میں اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں و تبادلے فیض حمید کی ٹرانسفر کی وجہ سے زیر بحث آ گئی ہیں کیونکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے اس دھڑے کا سرخیل سمجھا جا رہا تھا جو نومبر 2022 کے خاتمے سے پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے خواہاں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عمران کی واپسی کی صورت میں فیض حمید کے آرمی چیف بننے کا امکان بھی روشن ہو جاتا ہے۔ فیض حمید کی تعیناتی دو سال کے لیے کی گئی تھی لیکن انہیں صرف 9 ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے وقت سے پہلے اچانک تبادلے سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ وہ آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔

یاد رہے کہ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سے مسلسل یہ الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ انکی جانب سے چلائی گئی حکومت مخالف تحریک کے لیے پشاور سے اخلاقی اور مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ حکومت سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان اپنا زیادہ وقت پشاور میں گزارتے نظر آتے تھے کیونکہ پشاور کو عمران خان کی محفوظ پناہ گاہ بھی تصور کیا جاتا تھا جہاں ان کی اپنی جماعت اقتدار میں ہے۔ پشاور سے تبادلے کے بعد بہاولپور کی غیر اہم کور میں تعینات کیے جانے والے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تحریک انصاف کی حکومت کے دوران عمران خان کے قریب ترین تصور کیے جاتے تھے اور ان کے لیے سیاسی انجینئرنگ کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔ عمران خان کئی مواقع پر تسلیم کر چکے ہیں کہ پارلیمنٹ سے قانون سازی کروانی ہو یا اپنے اراکین اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہو، انہیں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھر پور مدد ملی۔

جنرل فیض کو آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹانے پر ہی عمران اور اسٹیبشلمنٹ کے مابین تعلقات خراب ہوئے تھے حالانکہ وہ اپنے عہدے کی معیاد پوری کر چکے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے ہٹا کر کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا تھا جسے الیون کور کہا جاتا ہے، اب سینیارٹی لسٹ میں 10 ویں نمبر پر موجود لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ایک کم اہم بہاولپور کور کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جسے 31ویں کور کہا جاتا ہے۔

سیاسی حلقے اس تقرری کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور عمران خان دونوں کے لیے مایوس کن قرار دے رہے ہیں، کیونکہ سینیارٹی لسٹ میں 19ویں نمبر پر موجود لیفٹیننٹ جنرل سردار حسن اظہر حیات کو انتہائی اہم پشاور کور کا کمانڈر لگایا گیا ہے، وہ ماضی میں آئی ایس آئی سے بھی وابستہ رہے ہیں اور قبائلی علاقوں میں اپنی تعیناتیوں کی وجہ سے افغان امور کے ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ بہاولپور کور ایک نئی کور ہے جس کا اکثریتی علاقہ صحرا پر مبنی ہے، جہاں ڈی ایچ اے بھی ڈویلپ کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق چکوال سے ہے۔ فوج میں پاس آؤٹ ہونے کے بعد وہ بلوچ رجمنٹ کا حصہ بنے۔ اس سے قبل وہ راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس سیکشن بھی رہ چکے ہیں۔ فیض حمید کا نام 2017 میں تب منظرعام پر آیا تھا جب تحریک لبیک نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا اور اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی دنوں تک دھرنا دیا۔ تب نواز لیگ کی حکومت تھی اور یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ دھرنا فیض حمید نے دلوایا تھا اور تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے خود ایک انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی تھی۔ یہ دھرنا ختم کروانے میں بھی فیض حمید نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا اور تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر ضامن کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ لہذا انہیں دفاعی حلقوں میں بھی ایک سیاسی جرنیل کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نومبر 2022 میں اپنے عہدے کی دوسری معیاد پوری کر کے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اگر جنرل باجوہ کو ایک اور توسیع نہیں دی جاتی اور موجودہ حکومت سنیارٹی کی بنیاد پر اگلا چیف تعینات کرنے کا فیصلہ کرے تو کوارٹر ماسٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف بن سکتے ہیں۔ ایک اور سینئر جنرل، کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد بھی اس عہدے پر تعینات ہو سکتے ہیں۔

نئے آرمی چیف کا فیصلہ جنرل قمر باجوہ نے ہی کرنا ہے

اسوقت نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی لسٹ میں مختلف نام ہیں۔ نئے آرمی چیف کے لیے نام بھجوانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ موجودہ آرمی چیف سینیارٹی فہرست میں سے پہلے تین یا پہلے پانچ نام جرنیلوں کی اہلیت کی جانچ کے بعد وزارت دفاع کے ذریعے وزیراعظم کو بھجواتے ہیں۔ ہر نام کے ساتھ ان کی اہلیت کی تفصیل لکھی ہوتی ہے جس کے بعد وزیراعظم ان تین یا پانچ ناموں سے ایک نام چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جبکہ ایک نام آرمی چیف کے عہدے کے لیے منتخب کر لیتے ہیں۔ اگر سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کسی کی سفارش کرنا چاہیں تو اس کا اضافی نوٹ بھی شامل ہو سکتا ہے لیکن حتمی اختیار اور منظوری وزیراعظم کی ہو گی۔ تاہم ماضی میں دو سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی تعیناتی کے مواقع پر تب کے وزرائے اعظم نے اپنی مرضی سے نئے آرمی چیف کا انتخاب کیا اور جرنیلوں کی سنیارٹی لسٹ کو مد نظر نہیں رکھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر کسی تنازع سے بچنے کے لیے شہباز شریف حکومت شاید سینئر موسٹ جرنیل کو ہی نیا آرمی چیف مقرر کرے گی۔

Related Articles

Back to top button