برطانیہ میں مقیم بلاگرز اور صحافیوں کی جانیں خطرے میں

برٹش پولیس نے برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھے جانے والے پاکستانی بلاگرز اور صحافیوں کو وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جانیں خطرے میں ہیں لہذا وہ انتہائی محتاط ہو جائیں اور اپنا میل جول محدود کر دیں۔

یہ انکشاف برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خطرے کی وارننگ اور ہدایات برطانوی پولیس کے معاون گروپ ‘کاؤنٹر ٹیررازم پولیسنگ’ کی جانب سے جاری کی گئی ہیں، جو دہشت گرد سرگرمیوں کو روکنے اور تحقیقات میں برطانوی انٹیلی جنس اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اس وارننگ کے تانے بانے حال ہی میں برطانوی عدالت سے سزا پانے والے کرائے کے قاتل گوہر خان کے کیس سے جڑے ہوئے ہیں جسے مبینہ طور پر ایک پاکستانی خفیہ ایجنسی نے ہالینڈ میں مقیم پاکستانی بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کے لئے بھرتی کیا تھا۔

گورایا کی تصویر اور پتا پاکستان میں مقیم ایک مڈل مین نے فراہم کیا تھا جس کی شناخت ٹرائل کے دوران مزمل کے نام سے ہوئی۔ برطانوی عدالت نے مقدمے کی دو ہفتے سماعت کے بعد گوہر خان کو قتل کی سازش کا مجرم قرار دے دیا ہے جسے مارچ میں سزا سنائی جائے گی۔

برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برٹش پولیس حکام نے کئی پاکستانی بلاگرز اور صحافیوں کو ان کی زندگی کے حوالے سے درپیش خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دفاعی تجزیہ کار معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کو بھی ان کی جان کو لاحق خطرات سے خبردار کیا جاچکا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ نے انکشاف کیا کہ ایک وکیل نے انہیں بتایا ہے کہ انہیں نشانہ بنانے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جاسکتا ہے اس میں برطانیہ میں مقیم منشیات کے پاکستانی گروہ شامل ہوسکتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ نے برطانوی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ وہ گوہر خان کیس میں نامزد ایک نامعلوم شخص کی بھی شناخت کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں جسے مڈل مین مزمل کا ‘باس’ کہا جاتا ہے، جوکہ ممکنہ طو پر وقاص گورایا کے قتل کی سازش کے پیچھے موجوف ہے۔

کاؤنٹر ٹیررازم پولیسنگ کے افسران نے برطانیہ میں مقیم بلاگرز اور پاکستانی سیاسی مبصر راشد مراد کو خبردار کیا کہ وہ اپنی سیکیورٹی کا جائزہ لیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے پہلے ہی ان کے گھر پر ایک ہنگامی الارم اور سی سی ٹی وی نصب کر رکھا ہے اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سیکیورٹی آفس سے ذاتی سیکیورٹی پر رہنمائی بھی فراہم کی گئی ہے۔

راشد مراد نے بتایا کہ 2 پولیس افسران ان کے گھر آئے اور انہیں بتایا کہ انہوں نے ایک رابطے کی اطلاع ملی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ انہیں نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ راشد مراد نے کہا کہ پولیس نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن اشارہ دیا کہ ان کا تعلق پاکستانی حکام سے ہے۔

رپورٹ میں وکیل فضل خان کا بھی ذکر کیا گیا جنہیں پاکستانی حکام کا ایک اور مبینہ ہدف قرار دیا گیا۔ فضل خان نے بتایا کہ پولیس کی کاؤنٹڑ ٹیررازم کمانڈ کے افسران نے ان سے کہا کہ اگر وہ لندن سے باہر سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو برطانیہ کی دیگر پولیس فورسز کو مطلع کریں۔

نور مقدم کیس:آئی جی کیخلاف کارروائی پر فیصلہ محفوظ

فضل خان نے دی گارجین کو بتایا کہ برطانیہ میں ایک شدید خطرہ موجود ہے، لندن، برمنگھم اور شیفیلڈ جیسے شہروں میں بڑی ایشیائی کمیونٹیز ہیں جہاں پاکستانی حکام کے پے رول پر لوگ موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مجھ سے کہا گیا کہ میں ادھر ادھر نہ جاؤں، شہر نہ چھوڑوں اور پولیس کو اپنے رابطوں کی تفصیلات فراہم کروں۔ برٹش پولیس کی جانب سے وارننگ وصول کرنے والوں میں پشتون حقوق کے لیے کام کرنے والے زر علی خان آفریدی بھی شامل ہیں۔ وہ پاکستان میں اغوا کی کوشش کے بعد بھاگ کر ہالینڈ چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے برطانوی اخبار دی گارڈین نے اگست 2021 میں بھی ایک رپورٹ میں انہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی صحافی اور بلاگر گل بخاری کا حوالہ دیا تھا جو 2018 میں لاہور میں اغوا ہونے کے بعد برطانیہ چلی گئی تھیں، رپورٹ کے مطابق برطانوی پولیس نے انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے گھر کا پتا کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔

دی گارڈین کی رپورٹ میں پاکستان میں برطانیہ کے سابق ہائی کمشنر مارک لائل گرانٹ کا ایک بیان شامل تھا جنہوں نے کہا کہ ‘اگر غیر قانونی دباؤ ہے، خاص طور پر برطانیہ میں صحافیوں پر ایسا ہوا ہے، تو میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور برطانوی حکومت سے توقع کروں گا کہ وہ اس کا نوٹس لیں اور مناسب قانونی اور/یا سفارتی ردعمل دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر برطانوی شہری یا برطانیہ میں مقیم قانونی طور پر کام کرنے والے آئی ایس آئی یا کسی اور کی طرف سے ہراساں کیے جاتے ہیں یا انہیں دھمکی دی جاتی ہے تو برطانوی حکومت ضرور نوٹد لے گی’۔

رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ یہ سازشی نظریات پر مبنی ہے، برطانوی پولیس خطرے کے بارے میں کیسے بات کر سکتے ہیں؟ یہ آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈا ہے’ فواد چوہدری نے پاکستان میں صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سینکڑوں نیوز چینلز کا وجود ‘اس تاثر کی نفی کرتا ہے کہ میڈیا دباؤ میں ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قوتیں پابندیاں لگا کر ممالک کو نچوڑتی ہیں اور آزادی اظہار رائے ایک نئی بلیک میلنگ کی اصطلاح ہے، آزادی اظہار کی بات کی جائے تو پاکستان شاید سب سے زیادہ آزاد ملک ہے، درحقیقت یہ اتنا آزاد ہے کہ یہاں ہتک عزت کے قوانین کا کوئی کلچر نہیں ہے.

اگر یہ یہاں ہوتا تو صحافیوں کا دیوالیہ ہو جاتا’۔ جب فواد سے وقاص گورایا کے قتل کی سازش بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ‘ان کے اپنے مسائل ہوسکتے ہیں، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے’۔

Related Articles

Back to top button