لانگ مارچ سے کبھی کوئی حکومت کیوں نہیں گرتی؟

پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ اور دھرنوں کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں کوئی بھی لانگ مارچ یا دھرنا کسی بھی حکومت کو گرانے میں کامیابی حاصل نہیں کر پایا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ احتجاج، جلسوں، دھرنوں اور لانگ مارچ سے بھری پڑی ہے۔پاکستان میں حکومت مخالف سیاسی تحریکوں کا سلسلہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیا الحق کے دور میں اپنے عروج پر رہا اور کئی طرح کی تحریکیں چلیں۔ تاہم لانگ مارچ کا سلسلہ 1990 کی دہائی میں شروع ہوا۔

نومبر 1990 میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں حزب اختلاف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نےکرپشن اور نا اہلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوری طور پر حکومت کی برطرفی اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ بعدازاں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس بھی اس لانگ مارچ کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے اسکا حصہ بن گیا۔ 18 نومبر 1992 کو ملک بھر سے آئے ہوئے تمام مظاہرین کو راولپنڈی لیاقت باغ سے پارلیمنٹ پہنچنا تھا۔نواز حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود بے نظیر بھٹو تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے لیاقت باغ پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں جہاں سے انہیں گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔

جولائی 1993 میں جب صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات شدید تر ہو گئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ تاہم اسکی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے صدر اور وزیراعظم دونوں کو استعفیٰ دینے پر راضی کر لیا۔ نئے الیکشن کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن کر برسراقتدار آ گئیں۔
2007 میں جنرل مشرف نے تب کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کیا تو ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع ہو گئی جس کی قیادت وکلا کر رہے تھے۔2007 کی ایمرجنسی کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت کئی سینئر ججوں کو پی سی او حلف نہ اٹھانے پر سبکدوش کر دیا گیا تھا جن کی بحالی کے لیے مسلسل تحریک جاری تھی۔ اس کے بعد اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔ مظاہرین کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اجتماع کی اجازت دی گئی لیکن یہ لانگ مارچ بے نتیجہ رہا اور مظاہرین کو اپنے مطالبات تسلیم کروائے بغیر واپس آنا پڑا۔

دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت اور اس کے بعد 2008 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو سید یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ اس دوران پارلیمنٹ کی جانب سے مواخذے کی دھمکی کے بعد پرویز مشرف کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا اور یوں آصف زرداری نئے صدر بن گئے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے مخلوط حکومت بنائی لیکن پھر ججوں کی بحالی کے مطالبے پر دونوں جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا اور نواز لیگ نے حکومت چھوڑ دی۔ اس کے بعد نواز شریف نے ڈیڑھ برس قبل برطرف کیے گئے چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت دیگر ججوں کی بحالی کے لیے 12 مارچ 2009 کو احتجاجی لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ وکلا کے علاوہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں سمیت کارکنوں کی بڑی تعداد نے ملک کے چاروں جانب سے اسلام آباد کی جانب سفر کا آغاز کیا۔ لیکن جب لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچا تو اس کو روک دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ حکومت نے چیف جسٹس کی بحالی کا فیصلہ کر لیا تھا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آدھی رات کو ٹیلی ویژن پر براہ راست قوم سے خطاب میں افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی ججز کی بحالی کا اعلان کیا جو کہ آئینی طور پر ممکن بھی نہیں تھا۔ یوں یہ واحد لانگ مارچ تھا جو کہ کامیابی پر متج ہوا۔

پی پی پی اپنا دور حکومت مکمل کرنے کے قریب تھی کہ 13 جنوری 2013 کو منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کے ہمراہ اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ 14 جنوری کو لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد پہنچے اور تین روز سخت سردی میں دھرنا دینے کے بعد 17 جنوری کو حکومت سے مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر پہنچ گئے اور مارچ اختتام پذیر ہو گیا۔

FIA کوعمران ودیگرکیخلاف کارروائی کا اختیارمل گیا

لیکن یہ معاہدہ وقتی طور پر احتجاج کے خاتمے کا بہانہ ہی ثابت ہوا۔ 2014 میں نواز شریف حکومت کا ڈیڑھ سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ تحریک منہاج القرآن اور تحریک انصاف نے ماڈل ٹاؤن میں فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کے خلاف لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے اور دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ،طاہرالقادری 19 اگست کو اپنے کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد کے ریڈزون میں داخل ہو کر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے دھرنے دے کر بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے تقریباً 68 دن دھرنا دینے کے بعد 21 اکتوبر کو اس کے خاتمے اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب احتجاج اگلے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔

اسی سال اگست 2014 میں ہی قومی اسمبلی کی تیسری بڑی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت رکھنے والی تحریک انصاف نے عمران کی قیادت میں آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد لانگ مارچ اور وہاں پہنچ کر دھرنے کا فیصلہ کیا۔ ریڈ زون میں یہ دھرنا قریباً 123 دن جاری رہنے کے بعد 16 دسمبر 2014 کو دہشت گردوں کے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد فوری طور ختم کر دیا گیا تھا۔ اس دھرنے کے اختتام پر حکومت اور تحریک انصاف کے دوران انتخابی دھاندلی کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔ کمیشن نے بعدازاں قرار دیا کہ 2013 کے انتخابات میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔ یوں ملکی تاریخ کے طویل ترین احتجاج اور دھرنے کے نتیجے میں تحریک انصاف اپنا اصل مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

پہلے مسلم لیگ ن اور بعد ازاں تحریک انصاف کے دور میں تحریک لبیک لاہور سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد پہنچتی رہی اور فیض آباد کے مقام پر ڈیرے جمائے رکھے۔ان کے پہلے دھرنے کے نتیجے میں وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی ہونا پڑا جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں معاہدہ ہوا جس میں حکومت نے فرانس کے سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے کی حامی بھری۔ تاہم بعد میں اس معاہدے پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔

2019 میں جمعیت علمائے اسلام نے کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ شروع کیا، جو کئی روز تک سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا۔ اسلام آباد کی طرف آخری تین لانگ مارچ موجودہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے رواں سال فروری اور مارچ کے مہینے میں کیے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ کراچی سے چل کر 10 روز بعد آٹھ مارچ کو اسلام آباد پہنچا۔ دوسری جانب جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ن کے الگ الگ مارچ لاہور، کراچی اور کوئٹہ سے چل کر اسلام آباد پہنچے اور ایک جلسہ عام کے بعد ختم ہوئے۔لاہور سے اسلام آباد کی جانب آخری لانگ مارچ عمران خان نے اکتوبر 2022 میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کیخلاف شروع کر رکھا ہے جس کا نتیجہ نکلنے کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔

Related Articles

Back to top button