سری لنکن مینجر کی ڈھال بننے والا عدنان ملک چھوڑ نے پر مجبور

سیالکوٹ میں توہین مذہب کے جھوٹے الزام پر قتل ہونے والے سری لنکن فیکٹری منیجر کی جان بچانے کی کوشش کرنے والا پاکستانی نوجوان ملک عدنان بھی قتل کی دھمکیوں کے بعد پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہو چکا ہے۔

یاد رہے کہ تحریک لبیک کی جانب سے اُکسائے جانے والے مشتعل ہجوم سے پریانتھا کمارا کو بچانے کی کوشش کرنے والے فیکٹری کے ڈپٹی منیجر ملک عدنان کو سابق وزیراعظم عمران خان نے تمغہ شجاعت سے نوازا تھا، لیکن اب عدنان نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے دھمکیوں کے باعث دو ماہ قبل فیکٹری کی نوکری چھوڑ دی تھی اور جان بچانے کے لیے بیرون ملک جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

سیالکوٹ میں توہین مذہب کا الزام لگا کر ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کے قتل کو ایک سال بیت چکا ہے۔ گذشتہ سال 3 دسمبر، 2021 کو یہ واقعہ پیش آیا تھا، پولیس نے اس کیس میں 100 سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا جبکہ سینکڑوں افراد سے تفتیش کی گئی۔ یہ مقدمہ پہلے گجرانوالہ میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت رہا۔

پھر ملزمان کی گرفتاریوں کے بعد کوٹ لکھپت جیل، لاہور میں سماعت ہوتی رہی، اپریل 2022 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے واقعے میں 6 مجرمان کو سزائے موت جبکہ 9 کو عمر قید کی سزا سنائی، جن میں سے بیشتر نے اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ ادھر سیالکوٹ پولیس کا کہنا ہے کہ حالات پہلے ہی معمول پر آ چکے ہیں اور ملزمان کو سزائیں ملنے سے لوگوں کے رویے بھی نارمل ہو چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس کا ازخود نوٹس لے لیا، بنچ تشکیل

جب پولیس افسران سے ملک عدنان کو ملنے والی دھمکیوں بارے پوچھا گیا انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں یے۔انڈیپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ کے نواحی گاؤں اولکھ جٹاں کی رہائشی ملک عدنان اس وقت انڈرگراونڈ ہیں اور بیرون ملک جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ رابطہ کرنے پر ملک عدنان نے بتایا کہ ’اس واقعے پر جس طرح حکومت اور ادارے متحرک تھے اب وہ بات نہیں رہی۔ صورت حال ایسی ہو چکی تھی کہ انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں اور کئی باریش فیکٹری ملازمین انہیں عجیب نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے دو ماہ قبل ملازمت چھوڑ دی اور اب بیرون ملک جانے کی تیاری میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے تمغہ شجاعت کے ساتھ ملنے والی رقم کے علاوہ انہیں کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ کس حالت میں ہیں۔

دوسری جانب پولیس ترجمان سیالکوٹ خرم شہزاد نے کہا کہ سیالکوٹ واقعہ ہائی پروفائل ہونے کے ساتھ پولیس کے لیے بھی بڑا کیس تھا اس میں تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پانچ ماہ میں ٹرائل مکمل کرایا گیا سینکڑوں افراد سے پوچھ گچھ کی گئی اور عدالتوں میں پیش کیے گئے۔‘ خرم کے بقول ’کیمروں، ویڈیوز اور جیو فینسنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے کوشش کی گئی کہ صرف واقعے میں ملوث ملزموں کو پکڑا جائے، جس کے بعد عدالت نے شواہد اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں ملزموں کوسزائے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ اس کے علاوہ جس کا جتنا جرم تھا اس لحاظ سے بھی سزا سنائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی طرف سے یہ کیس مکمل ہوچکا اسی لیے اسے بند کر دیا گیا ہے، اب معاملہ عدالتوں میں ہے، انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد فیکٹری مالکان اور سپر وائزرز کو ہدایت کی گئی کہ آئندہ اس طرح کے حالات پیدا ہونے سے پہلے ہی پولیس کو اطلاع دی جائے اور وہ بھی لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون کی مدد لینے پر آمادہ کریں۔

ملک عدنان کے مطابق پریانتھا کمارا کے بڑے بھائی اسی فیکٹری میں انہی کے عہدے پر کام کر رہے ہیں ان کی جگہ ان کے بھائی کو نوکری دے دی گئی تھی۔ لیکن اب وہ اپنی جان خطرے میں محسوس کر رہے تھے لہٰذا نوکری چھوڑ دی۔ اس کیس میں گواہان کے بیانات قلم بند کرنے اور فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر اپریل میں فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اس کیس میں سری لنکن شہری کو بچانے کی کوشش کرنے والے فیکٹری منیجر ملک عدنان نے بھی بیان ریکارڈ کروایا تھا جس کی بنیاد پر کئی فیکٹری ملازمین کو سزائیں ہوئیں اور اسی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔

Related Articles

Back to top button