مقبول بھٹو آج بھی زندہ اور قاتل ضیاء مردہ کیوں ہے؟

5 جولائی 1977 صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک منحوس دن ثابت ہوا۔ اس روزمنتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے ضیاء الحق کے فلسفے اورعمل کو تاریخ نے اس طرح باطل ثابت کردیا ہے کہ آج اس کے پروردہ سیاست دان بھی اس کا نام لینے کیلئے تیار نہیں۔

ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف لکھاری اور تجزیہ کار خالد جاوید جان کہتے ہیں کہ اب 5 جولائی 1977 سے پہلے کا پاکستان ایک خواب لگتا ہے۔ بھٹو کا پاکستان ایسا تھا جہاں نہ تو مذہب کے نام پر بیگناہوں کا خون بہایا جاتا تھا، نہ بم دھماکے اور خود کش حملے ہوئے تھے۔ نہ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر تھا، نہ اغوابرائے تاوان کے واقعات ہوتے تھے اور نہ لوڈ شیڈنگ اور غربت کا یہ عالم تھا۔ وہ ایک پر امن معاشرہ تھا۔ جہاں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح آتے تھے، لوگ ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے کوئی ان کے لباس یا حلیے پر تنقید نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی ان کے کھانے پینے یا عقیدے کے بارے میں کسی کو پروا تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کشمیر ، فلسطین اور تیسری دنیا کے مظلوم عوام کے ہیرو تھے۔ لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد نے پاکستان کو مسلم دنیا کا لیڈر بنا دیا تھا، جس سے سامراجی طاقتیں خوفزدہ تھیں کیونکہ بقول ذوالفقار علی بھٹو ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے وہ ابھی تک ویت نام ، فلسطین اور قبرص کے بارے میں ہماری پالیسیوں کو بھولا نہیں اور ہمیں اس کی سزا دینا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ تب کی امریکی ڈیمو کریٹک حکومت کا پارٹی نشان ہاتھی تھا۔

عمران کا پیسوں کی خاطر وزیر اعظم آزاد کشمیر ہٹانے کا فیصلہ

خالد جاوید جان کہتے ہیں کہ وہ پاکستان جو روشن خیالی، امن اور ترقی کے راستے پر گامزن ہوچکا تھا اسے 1977 کے عام انتخابات سے پہلے راتوں رات تشکیل پانے والے بھٹو مخالف سیاسی اتحاد کے ذریعے عدم استحکام کا شکار بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

1977 کے انتخابات اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات سے کہیں زیادہ شفاف تھے، جس کا اعتراف بھٹو مخالف سیاستدانوں نے خود کئی بار کیا ہے۔ لیکن پاکستان ، عالم ِ اسلام اور تیسری دنیا کو عظیم بھٹو کی قیادت سے محروم کرنے کے لیے بھٹو کی فتح کو دھاندلی کا نام دیکر انہیں ایک سازش کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ حالانکہ بھٹو پی این اے کا نئے الیکشن کے انعقادکا مطالبہ بھی مان چکے تھے۔ لیکن آمر ضیاء الحق ایک بڑے سازشی مہرے کے طور پر سامراجی طاقتوں کے ساتھ مل چکا تھا۔ اپنی حکومت کے آخری ایام کی ایک تقریر میں بھٹو نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا جسے وقت نے سچ ثابت کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے نہیں پتہ میرے بعد فرشتے آئینگے یا راسپوٹین ‘‘۔ دراصل راسپوٹین روس کے آخری زمانے کا ایک پادری تھا جو مذہب کے نام پر ہر طرح کی مکّاری اور عیاری کو جائز سمجھتا تھا۔ چنانچہ مذہب کے نام پر چلنے والی اس تحریک ِ نظامِ مصطفیٰ کے نتیجے میں ضیاء الحق برسرِ اقتدار آ گیا اور پاکستان کو ضیاءالحق لاحق ہو گیا۔

خالد جاوید جان کہتے ہیں کہ ضیا نے صرف پاکستان کو ہی نہیں پوری دنیا خصوصاًمسلم دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اس نے مذہب کے نام پر جھوٹ اور منافقت کو رائج کیا، اس نے ایک جعلی ریفرنڈم کروایا جس میں پوچھا گیا کہ کیا عوام اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ اگر وہ ہاں کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ وہ جنرل ضیاء کو صدر منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ ضیاء نے ملک گیر عوامی جماعت پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لیے اندرونِ سندھ علیحدگی پسندوں کو مضبوط کیا اور سندھ کے شہروں میں کئی فرقہ وارانہ اور لسانی گروہوں کی سرپرستی کی اس کے غیر جماعتی انتخابات نے قوم کو عمودی اور افقی ہر سطح پر تقسیم در تقسیم کردیا۔ اس نے اپنے سیاسی مخالفین کو سرِعام کوڑے مارنے کی غیر انسانی سزائیں دیں۔ اس کے نام نہاد اور خود ساختہ نظام ِ زکوٰۃ اور نظام ِ عدل نے کرپشن کے نئے دروازے کھول دئیے۔ اس نے ہر ممبر اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر لاکھوں روپے دیکر ضمیر فروشی کو سیاست کا حصّہ بنا دیا۔ اس نے اپنی غیر جمہوری آئینی ترامیم خصوصاًآٹھویں ترمیم کے ذریعے آمریت کو آئین کا حصّہ بنا دیا۔

خالد جاوید جان کے مطابق جنرل ضیاء کو عالمی تاریخ بھی اس لیے معاف نہیں کرے گی کہ اس نے سوویت یونین کے خلاف امریکی بالا دستی کی جنگ میں ہراول دستے کے طور پر حصّہ لیکر جہاں پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی اور غارت گری کی دلدل میں پھینک دیا۔ وہیں سوویت یونین کے زوال کے بعد پوری دنیا کو امریکہ کی یک طاقتی دہشت گردی کے حوالے کردیا جس کا سب سے زیادہ شکار مسلم ممالک ہی بنے جبکہ تیسری دنیا کے غیر مسلم ممالک بھی عدم استحکام کا شکار ہوگئے ۔ امریکہ کو اپنے نیوورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کے لیے کویت، عراق، افغانستان اور ایران سمیت دیگر خلیجی ممالک میں کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔

خالد جاوید جان کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ 5 جولائی 1977 صرف پاکستان ہی بلکہ نہیں پوری دنیا کیلئے ایک خوفناک دن ثابت ہوا۔ آئی ایس پی آر کے سابق ڈی جی میجر جنرل (ریٹائرڈ) اطہر عباس نے بجا طور پر کہا ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت اور جہادیوں کو پالنے کی اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا چاہئے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے ہی وہ ضیا الحق کے لگائے ہوئے زخموں کا مداوا کر سکتی ہے۔ ضیا کے فلسفے اور عمل کو تاریخ نے اس طرح باطل ثابت کردیا ہے کہ آج اس کے پروردہ سیاست دان بھی اس کانام لینے کیلئے تیار نہیں۔

Related Articles

Back to top button