قاتل طالبان سے خون کا حساب لینے کی بجائے مذاکرات کیوں؟

پاکستان میں بد ترین دہشت گردی کا دور ختم کرنے میں ہماری فوج، رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے جوانوں کا خون بہا ہے، ایسے میں دہشت گردی میں ملوث مسلح طلبان سے اس خون کا حساب لینے کی بجائے ان سے امن مذاکرات کرنے والوں کو سمجھنا ہو گا کہ طالبان نہ تو آئین پاکستان کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی ہتھیار ڈال کر سیاسی عمل کا حصہ بننے کو تیار ہیں لہذا ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کا کوئی امکان نہیں، ویسے بھی مذاکرات کرنے والوں کو کم ازکم یہ تو بتانا ہو گا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں کے قاتلوں کو کس قانون کے تحت معاف کیا جائے گا؟

پی ٹی آئی اراکین پارلیمنٹ لاجز خالی کرانے کیخلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع

معروف لکھاری اور تجزیہ کار یاسر پیرزادہ اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چوبیس سال کی نور مقدم کو قتل کر کے اس کی لاش کی بوٹیاں کرنے والا ظاہر جعفر اس وقت جیل میں ہے، عدالت اسے پھانسی کی سزا سنا چکی ہے اور قاتل نے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔ یہاں میرا ایک سوال ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ریاست پاکستان ظاہر جعفر سے ’مذاکرات‘ کرے اور اگر وہ مستقبل میں پرامن شہری بننے کی یقین دہانی کروا دے تو ریاست اسے رہا کردے؟

وہ مزید لکھتے ہیں کہ پچیس سال کی ایک عورت، دو بچوں کی ماں، گزشتہ ماہ ٹرین سے کراچی سے ملتان جا رہی تھی کہ ٹرین میں سوار تین افراد نے اس کا ریپ کر دیا، ریپ کرنے والوں میں ایک ٹکٹ چیکر بھی شامل تھا، یہ ملزمان اب گرفتار ہو کر حوالات جا چکے ہیں، عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا جائے گا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ریاست پاکستان ان ملزمان سے بھی ’مذاکرات‘ کرے اور اگر وہ وعدہ کریں کہ آئندہ چلتی ٹرین میں کسی کا ریپ نہیں کریں گے تو انہیں با عزت شہری کی طرح رہا کر دیا جائے؟

اسی طرح وہ یاد دلاتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ایف نائن پارک اسلام آباد میں یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو ڈاکوؤں نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، لڑکے کی عمر بمشکل پچیس سال تھی، وہ فارغ وقت میں نجی کمپنی میں ملازمت کرتا تھا اور اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ملزمان تا حال تو گرفتار نہیں ہو سکے البتہ ان کی گرفتاری کی صورت میں کیا ان سے اس شرط پر مذاکرات ہوسکتے ہیں کہ اگر وہ ہتھیار پھینک دیں اور ڈکیتی کا شغل ترک کر دیں تو انہیں معاف کر دیا جائے گا؟

یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں یہ تینوں سوالات بچگانہ ہیں، دنیا کے کسی بھی قانون میں ان سفاک مجرموں کی معافی کی گنجایش نہیں، کوئی مہذب معاشرہ ان درندوں سے مذاکرات نہیں کرے گا بلکہ کسی معاشرے میں سرے سے یہ بات ہی موضوع بحث نہیں ہوگی۔ لیکن دوسری طرف ہم اکثر یہ خبریں بھی سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں ریاست اور علیحدگی پسندوں کے درمیان مذاکرات کامیاب، امن معاہدے پر دستخط ہو گئے، باغیوں نے ہتھیار پھینک دیے، ریاست نے عام معافی کا اعلان کر دیا، تشدد پسند گروہ اب ایک سیاسی جماعت بنا کر انتخابات میں حصہ لے گا اور ملک امن کی طرف گامزن ہو گا، وغیرہ۔ لیکن کیا دنیا میں واقعی مسلح گروہوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جاتا ہے؟

یاسر کولمبیا کی مثال دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہن2016 میں حکومت کولمبیا اور بائیں بازو کے مسلح باغیوں کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں باغیوں نے 52 سال سے جاری گوریلا جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا، ہتھیار پھینک دیے اور ایک پر امن جماعت کے طور پر سیاسی عمل میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ پانچ دہائیوں کی اس خوں ریزی میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ مذاکرات میں سب سے زیادہ پیچیدہ بات ہی یہ تھی کہ جنگ میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو انصاف کیسے دلایا جائے، اس نکتے پر مذاکرات کئی مرتبہ تعطل کا شکار ہوئے مگر بالآخر ایک طویل اور تھکا دینے والے عمل کے نتیجے میں فریقین کے مابین چند اصول طے پا گئے۔ وہ اصول کچھ اس طرح تھے کہ سب سے پہلے متاثرین کی شناخت کا عمل مکمل کیا جائے گا، پھر ان کے مجرمان کی نشاندہی ہوگی، متاثرین کے حقوق کا تعین کیا جائے گا، ایک سچائی کمیشن بنا کر سچ کی پڑتال کی جائے گی، متاثرین کے لیے معاوضے کا بندو بست کیا جائے گا، آئندہ کے لیے ان کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت دی جائے گی اور اس بات کو ممکن بنایا جائے گا کہ مستقبل میں انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔

بقول یاسر ہیرزادہ، ان تمام اصولوں پر عمل درآمد کے لیے ٹربیونل اور کمیشن قائم کیے گئے اور اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ متاثرین میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ ریاست نے باغیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا۔ تاہم معاہدے کی ان تمام شقوں کے باوجود کولمبیا کے عوام نے رائے شماری میں اسے رد کر دیا۔
کولمبیا سے پاکستان واپس آتے ہیں۔ آج کل یہاں بھی شدت پسندوں سے مذاکرات کی خبریں چل رہی ہیں، یہ خبریں پہلی مرتبہ سننے کو نہیں ملیں، ماضی میں بھی کئی مرتبہ طالبان سے مذاکرات ہو چکے ہیں اور وہ سب ناکام ہوئے۔ ہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس قسم کے مذاکرات ایک صبر آزما عمل کے نتیجے میں ہی کامیاب ہوتے ہیں مگر یہاں معاملہ کافی مختلف ہے۔ پاکستان میں کوئی سیاسی جد و جہد نہیں کی جا رہی اور نہ ہی یہاں مسلح گروہ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ نظام حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس قسم کے مذاکرات اس صورت میں کیے جاتے ہیں جب ریاست باغیوں کے سامنے خود کو بے بس اور لاچار سمجھے اور مسلح جد و جہد کرنے والوں کے مطالبات بھی جائز نوعیت کے ہوں۔

یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے کیس میں یہ دونوں شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ طالبان کے مطالبات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، وہ آئین پاکستان کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، وہ کسی ایسے نظام کا حصہ بننے کو تیار نہیں جو ان کے تعبیر دین سے ذرہ برابر بھی مختلف ہو، وہ ماضی میں نہ صرف سیکورٹی اداروں بلکہ معصوم اور بے گناہ شہریوں بلکہ عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں۔ ایسے کسی مسلح گروہ سے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی مثال کم از کم حالیہ تاریخ میں تو نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ بھی طالبان نے اس بات کا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ وہ ہتھیار پھینک کر سیاسی عمل کا حصہ بن جائیں گے، انہوں نے تو فاٹا کو بحال کر کے وہاں اپنا قانون نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ یہ علاقہ پاکستان سے کٹ کر باہر ہو جائے گا۔

یاسر کا کہنا ہے کہ رہی بات دہشت گردی کے متاثرین تو ان کا دور دور تک کوئی ذکر اذکار نہیں، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بچوں کے قاتلوں کو کس قانون کے تحت معاف کیا جائے گا یا نہتے شہریوں پر بم برسانے والوں کو عام معافی کیوں کر دی جائے گی۔ بالفرض محال اگر وقتی جنگ بندی ہو بھی گئی تو اس قسم کے مسلح گروہوں میں یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ وہ سب گروہ ایک کمان کے تابع ہو کر امن معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ یہ ملک بد ترین دہشت گردی کا دور دیکھ چکا ہے، اس دہشت گردی کو ختم کرنے میں ہماری فوج، رینجرز، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے جوانوں کا خون ہے۔

یاسر سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ مسلح گروہ اتنے طاقتور ہیں کہ ان سے خون کا حساب نہیں لیا جا سکتا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں دینا ہے، تو کیوں نہ یہ سوال ریفرنڈم کے ذریعے پوچھ لیا جائے!

Related Articles

Back to top button