آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ،پاکستان نے بھارت کا گھمنڈکیسےتوڑا؟

آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کو چار سال گزرچکے ہیں۔چار سال قبل فروری 2019 میں پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں جنگ کے دہانے سے واپس آئی تھیں مگر اب اس واقعے کو چار سال بیت چکے ہیں اور ان برسوں میں پاکستان انڈیا تعلقات بہت سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔

 

خیال رہے کہ بھارت نے 27 فروری 2019 کو  پلوامہ حملے کے جھوٹے پروپیگنڈے پر کنٹرول لائن پار کرنے کی غلطی کی جس پر پاکستان نے بھارت کو ’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ‘ کی صورت میں کرارا جواب دیا تھا۔ چار سال پہلے27فروری کے دن پاک فضائیہ کے شاہینوں نے دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے تھے اور بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کرلیا تھا، “Tea Is Fantastic” بھارتی فضائیہ کی ناکامی کا استعارہ بن گیا۔بھارتی حکومت پاک فضائیہ کا ایک ایف سولہ جہاز گرانے کا جھوٹ مسلسل بولتی رہی لیکن بھارتی جھوٹ کا پول امریکی جریدے فارن پالیسی نے کھولا، جس کے بعد بھارتی میڈیا بھی سچائی دکھانے پر مجبور ہوگیا۔

 

بھارتی طیارے کی تباہی، ابھی نندن کی گرفتاری اور رہائی نے پاک بھارت تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کئے سابق سفیر آصف درانی کے مطابق ’جب سے نریندر مودی نے حکومت سنبھالی ہے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی اچھے نہیں ہو سکے، پلوامہ حملے کو نریندر مودی نے الیکشن مہم کے لیے استعمال کیا۔ دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد کشمیر کی حیثیت بدل دی اور یہ ان کے پلان کا حصہ تھا۔‘آصف درانی نے کہا کہ ’چار برسوں میں ایک مثبت بات ہوئی ہے اور وہ فروری 2021 میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی ہے۔ اس کا فائدہ کشمیریوں کو ہوا ہے کیونکہ انڈین جارحیت کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر جانی نقصان ہوتا تھا۔‘انہوں نے کہا کہ ’پاکستان جوابی کارروائی میں محتاط ہوتا تھا کیونکہ سرحد کے اس پار بھی کشمیری آبادی ہیں، جن کا ہم نقصان نہیں چاہتے۔‘آصف درانی نے کہا: ’فی الحال تو نظر نہیں آ رہا کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلے کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان بات نہیں کر سکتا۔‘

 

سفارتی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شوکت پراچہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی بنیاد تو ابھی پانچ اگست 2019 کے معاملات ہی ہیں، پاکستان نے اپنی طرف سے سرخ لکیر کھینچی ہوئی ہے کہ جب تک انڈیا کی جانب سے کشمیر کا پرانا سٹیٹس بحال نہیں کیا جاتا پاکستان آگے نہیں بڑھے گا۔‘انہوں نے کہا کہ ’پلوامہ، ابھی نندن اور پانچ اگست کے واقعات کے تسلسل کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات تنزلی کا شکار ہیں۔‘شوکت پراچہ نے مزید کہا کہ ’ہائی کمیشن میں بھی معاملات  ڈپٹی ہائی کمشنر چلا رہے ہیں، چار سال سے ہائی کمشنر بھی تعینات نہیں ہوئے، دونوں جانب سے عملے کی تعداد بھی آدھی کی گئی۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت بھی مکمل بند ہے اور نہ ہی کوئی زمینی رابطے ہیں۔ سارک کا فورم بھی گذشتہ کئی برسوں سے غیر فعال ہے۔’لیکن شنگھائی تعاون تنظیم میں ہم توقع کر سکتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کچھ برف پگھلے، تاہم کوئی بڑا بریک تھرو اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان میں رواں برس اور انڈیا میں آئندہ برس انتخابات ہیں تو کوئی حکومت ایسا بوجھ نہیں اٹھانا چاہے گی۔ البتہ اتنا ہو سکتا ہے کہ بڑے فورمز پر دونوں ممالک ایک دوسرے سے بات چیت بحال کر لیں۔‘

 

واضح رہے کہ پاکستان انڈیا تعلقات میں کشیدگی فروری 2019 میں اس وقت بڑھی جب انڈیا نے 14 فروری کو پلوامہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا، جس کا پاکستان نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔اس واقعے کے بعد انڈیا نے پاکستان سے متصل سرحد پر فوج کی تعداد بڑھا دی اور پاکستان پر حملے کے بیانات سامنے آنے لگے۔ پلوامہ واقعے کے 12 دن بعد بالاکوٹ ایئر سٹرائیک اور اس سے اگلے دن سرکاری موقف کے مطابق جب انڈین جہاز پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے تو پاکستان ائیر فورس کے لڑاکا طیاروں نے لائن آف کنٹرول میں کشمیر کے سماہنی سیکٹر میں انڈین مگ 21 طیارہ مار گرایا، جس کے بعد انڈین پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو حراست میں لیا گیا۔

 

سفارتی مداخلت کے باعث اگلے دن انڈین پائلٹ کو براستہ واہگہ انڈیا کے حوالے کر دیا گیا، جس کے بعد دونوں ممالک کی کشیدگی کو بین الاقوامی برادری کی مداخلت نے کچھ حد تک کم کیا۔ 27 فروری کے واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا صارفین نے انڈین پائلٹ کی ویڈیو پوسٹ کی، جس میں انہوں نے اپنا جہاز تباہ ہونے اور اپنی حراست کا بتایا تھا۔انڈیا میں انتخابات اور نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد  پانچ اگست 2019 کو وہ واقعہ بھی پیش آیا، جب انڈیا نے اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرکے اسے انڈیا میں ضم کر لیا جس پر کشمیریوں نے اور پاکستان نے عالمی برادری کے سامنے احتجاج کیا لیکن تاحال اس معاملے پر کچھ نہیں ہو سکا۔

تمام اداروں کا اپنی حدود میں واپس آنا ضروری کیوں؟

Related Articles

Back to top button