کیا قومی ادارے بیچ کر پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ جائیگا؟

پاکستانی روپے کی ابتر صورتحال، ڈالر کی بے لگام پرواز نے ملک کو معاشی بحران سے دوچار کر دیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر نو ارب 30 کروڑ ڈالر تک گر گئے ہیں اور پاکستانی بانڈز بین الاقوامی مارکیٹ میں آدھی قیمت پر بیچے جا رہے ہیں، دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے بھی تمام تر شرائط قبول کرنے کے باوجود قرضے کی اگلی قسط نہیں آ رہی، ان حالات کے پیش نظر حکومت پاکستان کچھ قومی اداروں کو دوست ممالک کو بیچنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ اڑھائی ارب ڈالرز اکٹھے کئے جا سکیں۔ ذرائع کا کہنا یے کہ شہباز حکومت دو پاور پلانٹس اور کچھ اداروں کے شیئرز عرب ممالک کو بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے تقریباً اڑھائی ارب ڈالرز معیشت میں شامل ہو سکیں گے اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا مل سکے گا۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اداروں کو بیچنا ہمارے معاشی مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر اس نجکاری سے پاکستان کو اڑھائی ارب ڈالرز مل بھی جائیں تو وہ ذیادہ عرصہ کارآمد ثابت نہیں ہوں گے، بتایا جا رہا ہے کہ حال ہی میں چین سے جو اڑھائی ارب ڈالرز ملے تھے انہیں ایک ماہ سے کم عرصہ میں ہی خرچ کر لیا گیا، اس لیے نجکاری کرنے سے وقتی طور پر تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن وہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔
بیرون ملک پاکستانی آمروں کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان سٹیٹ آئل کی بھی نجکاری کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے، لیکن جن شرائط پر یہ کام ہونے جا ر ہا ہے وہ پاکستان کے حق میں زیادہ بہتر دکھائی نہیں دیتیں، ممکنہ طور پر عرب دوست ملک نے پی ایس او کے شیئرز اس شرط پر خریدنے کی حامی بھری ہے کہ اگر کل کو شئیرز بیچنے کا فیصلہ کیا گیا تو حکومت پاکستان اسے واپس خریدے گی لیکن تب اسکی قیمت دوست عرب ملک طے کرے گا، یعنی یہ ایک طرح کا قرض ہوگا۔
اس سے پہلے بھی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتیں ملکی اثاثے گروی رکھ کر بھاری قرض لیتی رہی ہیں، جن میں موٹر وے، کراچی، اسلام آباد ائیر پورٹ، ریڈیو پاکستان کی عمارت اور اسلام آباد کے ایف نائن پارک کے علاوہ کئی اثاثے شامل ہیں، لیکن کوئی بھی حکومت آج تک ان اثاثوں کے عوض قرض کی ادائیگی کر کے انہیں واپس حاصل نہیں کر پائی۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسی طرز پر مزید قرضے لینے کی پالیسی قائم رہتی ہے تو ممکنہ طور پر پاکستان کے اثاثوں کی خریداری میں بھی ممالک دلچسپی نہیں لیں گے، کیونکہ آج پاکستان کے بانڈز آدھی قیمت پر بھی کوئی لینے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے، مفتاح اسماعیل چند دن پہلے دوبارہ فرما رہے تھے کہ جو کراچی سٹیل مل خریدے گا اسے ہم پی آئی اے مفت میں دیں گے، کیونکہ ان کے نقصانات ان کے اثاثوں سے زیادہ ہیں۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ مفتاح اسماعیل کا یہ بیان حقائق کے منافی ہے، پاکستان سٹیل مل کے پاس کم و بیش پانچ ہزار ایکڑ زمین موجود ہے، اگر اس زمین کی پلاٹنگ کر کے اسے کمرشل حب بنا دیا جائے تو کھربوں روپے باآسانی کمائے جا سکتے ہیں، اسی طرح پاکستان ریلویز کے پاس اربوں ڈالرز کی زمین بیکار پڑی ہے، جس سے قبضہ مافیا پیسہ بنا رہا ہے، ان کا الزام ہے کہ پی آئی اے میں 10 ملازمین کی جگہ 50 ملازمین بھرتی کیے جا رہے ہیں، لہٰذا اگر نجی ایئر لائنز منافع میں جا سکتی ہیں تو پی آئی اے کیوں منافع نہیں کما سکتی؟
دوسری جانب ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق نجکاری کرنا ایک بہتر فیصلہ ہے کیونکہ جو ادارے حکومت کئی سالوں سے منافع میں نہیں چلا سکی وہ اب کیسے منافعے میں آ سکتے ہیں؟ انہیں بیچ دینا بہتر ہے، ان کا کہنا تھا کہ سرکار پچھلے تین سالوں سے ایل این جی نجکاری کرنا چاہتی ہے لیکن کوئی ان اداروں کو لینے کو تیار نہیں ہے، کیونکہ یہ اتنا سیدھا معاملہ نہیں ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ شاید ابھی بھی یہ ڈیل نہ ہو سکے۔
سابق وزیر خزانہ شبیر زیدی نے بتایا کہ ملکی اثاثے بیچنے سے پاکستان دیوالیہ پن سے نہیں بچ سکتا، میں نے کئی ماہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن پورا ملک میرے پیچھے پڑ گیا تھا، آج سب میری بات کی تصدیق کر رہے ہیں، ملکی اثاثے بیچنے سے دیوالیہ پن کا خطرہ نہیں ٹلے گا لیکن سیاسی استحکام آنے سے مزید وقت ملنے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اثاثے بیچ کر حاصل کردہ چند ارب ڈالرز چند دنوں میں ختم ہو جائیں گے، اس کے بعد ہم کیا کریں گے؟ لہٰذا اگر برآمدات بڑھتی رہیں، ٹیکس آمدن میں اضافہ ہوتا رہے اور درآمدات پر قابو پا لیا جائے تو ملکی اثاثے بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔