پاکستانی سفیر کی بائیڈن سے ملاقات، علوی پھر بھی انکاری

ایک جانب عمرانڈو صدر کا کردار ادا کرنے والے عارف علوی امریکی سفیر کو ملنے اور انہیں اپنی تقرری کے کاغذات پیش کرنے کا موقع دینے سے انکاری ہیں تو دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے واشنگٹن میں تعینات ہونے والے پاکستانی سفیر مسعود احمد خان سے ملاقات کرکے ان کی نامزدگی کی باقاعدہ توثیق کر دی ہے۔

شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب میں بڑے بریک تھرو کا امکان

14 جون کو پاکستانی سفیر مسعود خان نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی جہاں دونوں نے پاکستان امریکا تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے مضبوط بنیاد تشکیل دینے پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکا میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق مسعود خان نے امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کرنے اور ایک سرکاری تصویر بنوانے کے لیے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا جو نئے تعینات ہونے والے سفیروں کے لیے ایک روایت ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ تقریب کے دوران امریکی صدر اور سفیر نے امریکا اور پاکستان کے مابین تعلقات آگے بڑھانے کے لیے بات چیت کی۔ امریکی حکومت ایک روایت کی پیروی کرتی ہے جس کے تحت واشنگٹن میں نئے سفیروں کے تقرر کے بعد وائٹ ہاؤس میں تقریب منعقد کی جاتی ہے جہاں نئے سفیر سربراہ مملکت کو اپنی تقرری کی اسناد پیش کرتے ہیں۔

مسعود خان کو 25 مارچ کو تب واشنگٹن بھیجا گیا تھا جب پی ٹی آئی حکومت برسر اقتدار تھی۔ مسعود احمد خان دراصل اسد مجید خان کی جگہ سفیر تعینات ہوئے تھے۔ اسد مجید نے وہ خط لکھا تھا جس کو بنیاد بنا کر عمران خان نے امریکہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا ہے۔ 11 اپریل کو سابق وزیراعظم عمران خان کی برطرفی کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ اسلام آباد میں تبدیلی سے سفارتی تقرریوں پر بھی اثر پڑے گا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور اب امریکی صدر نے مسعود احمد خان کی تقرری کو ریگولرائز کر دیا ہے۔

اسی ہفتے واشنگٹن پہنچنے پر مسعود خان کو امریکی محکمہ خارجہ کے چیف آف پروٹوکول کی طرف سے ایک خط موصول ہوا تھا جس میں ان کی واشنگٹن میں پاکستان کے ورکنگ ایمبیسیڈر کے طور پر تقرری کی توثیق کی گئی تھی۔ بعد ازاں 19 اپریل کو انہیں امریکی صدر کے دفتر سے ایک خط بھی موصول ہوا جس میں ان کے تقرر کی باضابطہ تصدیق کی گئی تھی۔ 14 جون کو صدر بائیڈن کے ساتھ ایک سرکاری تصویر بنوانے کے لیے 46 دیگر سفیر بھی وہاں موجود تھے جن کو ایک ایک کر کے بلایا گیا، یہ تمام سفرا بھی کووڈ۔19 کی پابندیوں کی وجہ سے عرصے سے صدر سے ملاقات نہیں کر سکے تھے۔ چونکہ صدر بائیڈن کی عمر 79 سال ہے اور ان کے وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ رہتا ہے اس لیے وائٹ ہاؤس نے صدر کے دوسروں کے ساتھ رابطے کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی۔ واشنگٹن میں سفارتی ذرائع نے اس سے قبل بتایا تھا کہ کووڈ۔19 نے اسناد کی تقریب کو بھی متاثر کیا ہے۔ اب وائٹ ہاؤس نے تمام دستاویزات پر کارروائی کی اور پہلے ضروری خطوط جاری کیے اور پھر فوٹو سیشن کے لیے سفرا کو مدعو کیا۔

دوسری جانب پاکستان میں نئے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو اپنا عہدہ سنبھالے ایک ماہ کا وقت گزر چکا ہے لیکن صدر عارف علوی نے اب تک سابقہ روایت کے مطابق انہیں اپنی تقرری کی اسناد پیش کرنے کا موقع نہیں دیا اور بظاہر اس کام میں جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے۔ اس تاثر کی تب تصدیق ہو گئی جب امریکہ کے نامزد سفیر ڈونلڈ بلوم نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے اعتراض کیا ہے کہ صدر کو سفارتی اسناد پیش کرنے سے قبل امریکی سفیر کی وزیر خارجہ سے ملاقات سفارتی پروٹول کی خلاف ورزی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سفیر کی تعیناتی 19 مئی کو ہوئی تھی لیکن ابھی تک وہ صدر کو اسناد تقرری پیش نہیں کر سکے۔

اس حوالے سے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بتایا کہ کسی بھی سفیر یا ہائی کمشنر کے ذمہ داریاں سنبھالنے اور اسناد تقرری پیش کرنے کے عرصے کے دوران اس کو نامزد سفیر یا ہائی کمشنر ہی کہا جاتا ہے۔ان کے مطابق ’نامزد سفیر یا ہائی کمشنر صدر اور وزیراعظم کے علاوہ کسی سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں اور اپنے منصب کے مطابق اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کی تقرری اور مکمل سفارتی حیثیت دینے کے لیے صدر کو اسناد پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’اگرچہ دنیا کے ہر ملک میں اس حوالے پروٹوکولز مختلف بھی ہیں لیکن پاکستان میں یہی طریقہ کار رائج ہے۔ اس لیے صدر کو اسناد پیش کرنے سے قبل اعتراض بنتا نہیں ہے۔‘

برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر نفیس ذکریا نے بتایا کہ جب کوئی ہیڈ آف مشن کسی ملک میں پہنچتا ہے تو ممکن ہے کہ صدر کی مصروفیات یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر اسناد تقرری پیش کرنے میں کئی ماہ لگ جائیں۔ ’ایسے میں ہیڈ آف مشن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنی تقرری کی اسناد کی فوٹو کاپی دفتر خارجہ میں چیف آف پروٹوکول کو پہنچا دیتا ہے۔ جس کے بعد وزارت خارجہ کی جانب سے اسے فنکشنل ہونے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ فنکشنل ہونے کے بعد وہ بحیثیت سفیر اپنی سفارتی ذمہ داریاں ادا کر سکتے ہیں۔ ’اس حیثیت میں وہ وزراء، سرکاری حکام اور دیگر سے ملاقاتیں اور روابط کرسکتے ہیں۔‘

دوسری جانب نامزد امریکی سفیر کی اسناد تقرری صدر کو پیش کرنے کے حوالے سے دفتر خارجہ نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ نئے ہیڈ آف مشنز کی اسناد پیش کرنے کی تقریب باہمی مشاورت اور سفارتی پروٹوکولز کے تحت منعقد کی جاتی ہے۔ نئے بیچ کے لیے بھی تقریب مستقبل قریب میں منعقد کی جائے گی اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں پر مبنی خبریں بے بنیاد ہیں۔

Related Articles

Back to top button