دوہری شہریت پر پابندی کا امکان، پاکستانی بیوروکریٹس پریشان

حکومت پاکستان کی جانب سے بیوروکریٹس کے لیے دوہری شہریت رکھنے پر مجوزہ پابندی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد افسر شاہی پریشانی کا شکار ہوگئی ہے۔ پاکستانی ایوان بالا سینیٹ میں ایک مجوزہ قانون پیش کیا گیا ہے، جس کا مقصد شہریت کے قوانین میں ترمیم کرنا ہے۔ اس ترمیم سے پاکستانی بیوروکریٹس کو دوہری شہریت رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔

یہ بل تمام بیورکریٹس کو دوہری شہریت چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی شہریت ترک کرنے کے لیے انہیں ایک ٹائم فریم دیا جائے گا۔ دوسری جانب کچھ حلقے اس مجوزہ قانون کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے کیبنٹ ڈویژن نے حالیہ دنوں سینیٹر افنان اللہ خان کی جانب سے سول سروس سرونٹس ترمیمی بل 2021 پر غوروخوض کیا۔ انکا کہنا تھا کہ اہم ترین فیصلہ سازی کے ذمہ دار سینئر بیوروکریٹس کے لیے دیگر ممالک کی شہریت رکھنا کسی صورت میں مناسب نہیں ہے۔

کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان کے بیووکریٹس پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُس قانون کو کالعدم قرار دے دیا جس کے مطابق پاکستان کی فیڈرل بیورکریسی کے افراد پلاٹ حاصل کرتے تھے اور اب ایک ایسے بِل پر ملک میں بحث ہورہی ہے جس کے ذریعے ممکنہ طور پر بیوروکریٹس کو دہری شہریت سے روکا جائے گا اور جن کے پاس یہ دہری شہریت ہوگی ان کو ایک ٹائم دیا جائے گا کہ وہ اس کو چھوڑ دیں۔

اردو نیوز کے مطابق پاکستانی افسر شاہی سے وابستہ افراد نے اس مجوزہ بل پر ملا جلا ردعمل دیا ہے۔ کچھ اس کا خیر مقدم کررہے ہیں اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اس کا بہانہ بنا کر کچھ حلقے بیوروکریٹس کو بدنام کر رہے ہیں۔

وزارت صحت سے انیسویں گریڈ میں ریٹائر ہونے والے بیوروکریٹ اور ڈرگس ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے سابق سینیئر افسر ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف بیورو کریٹس کا نہیں ہے بلکہ اس قانون کا ہے، جس کے مطابق انہیں یہ اجازت ہے کہ وہ دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرشید کے مطابق اگر حکومت اس سلسلے کو روکنا چاہتی ہے تو اس قانون کو ختم کر دے۔

برطانیہ میں مقیم بلاگرز اور صحافیوں کی جانیں خطرے میں

ڈاکٹر عبدالرشید کا کہنا تھا کہ ایک عام بیورو کریٹ کے لئے تو 30 تاریخ کے بعد گھر چلانا بھی مشکل ہوتا ہے، اگر وہ تنخواہ پر گزارہ کر رہا ہے تو اس کے لئے بڑی مشکلات ہوتی ہیں اور وہ کسی بھی طرح غیر ملکی شہریت نہیں لے سکتا ہے، لیکن جنہوں نے خوب کھایا اور کمایا ہوتا ہے وہی غیر ملکی شہریت لیتے ہیں۔

کئی سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر عبدالرشید کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ زیادہ تر دوسرے ملک جانے والے بیوروکریٹس نے اچھا خاصا مال بنایا ہوا ہوتا ہے۔ ایک وفاقی وزارت سے حال ہی میں ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر ریٹائر ہونے والے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کسی دوسرے ملک کی شہریت لینے کے لیے آپ کو اچھے خاصے اثاثے ظاہر کرنے پڑتے ہیں،

اس کے علاوہ ایک خطیر رقم بھی خرچ کرنی پڑتی ہے، جو یہاں دبا کر پیسے بناتے ہیں ان کے لیے یہ آسان ہوتا ہے کہ وہ غیر ملکی شہریت لیں، ایک ایماندار بیوروکریٹ کے لیے ساری زندگی نوکری کرنے کے بعد اگر وہ اپنا گھر بھی بنا لے تو بہت بڑی بات ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا یہاں کہ بیوروکریٹس کو مختلف بہانوں سے بدنام کیا جاتا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسی پالیسی بنائے جس میں بیوروکریٹس دوسرے ممالک کی طرف نہ دیکھیں۔ ان کے مطابق ملک میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر شادیانے بج رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بیروکریٹ پلاٹ نہیں لے سکتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیس چالیس سال کی سروس کے بعد ایک ایماندار بیوروکریٹ کو کم از کم یہ آسرا تو ہوتا ہے کہ اس کو سر چھپانے کی جگہ ملے گی۔ لہٰذا اس فیصلے سے بے ایمان بیوروکریٹس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ایماندار بیوروکریٹس کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔

تاہم کچھ بیوروکریٹس کا کہنا ہے کہ دوہری شہریت لینا کسی بھی فرد کا نجی معاملہ ہے اور حکومت کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ حکومت کو متعلقہ بیوروکریٹ کی کارکردگی پر نظر رکھنا چاہیےاور اسی کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔

ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر منیر احمد جان کا کہنا ہے کہ دوہری شہریت لینا غیر قانونی نہیں ہے تو پھر اس پر اعتراض کیسا۔ منیر کے بقول زیادہ تر بیوروکریٹس کو دوہری شہریت اس وجہ سے لینی پڑتی ہے کہ وہ زمانہ طالب علمی میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں، جہاں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بہت سارے اس دوران شادیاں بھی کر لیتے ہیں۔ پھر گھر کی مجبوری اور بچوں کی وجہ سے بھی دوہری شہریت لینا پڑتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بے ایمان ہیں اور ناجائز طریقوں سے پیسے کماتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button