تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک جیسی کیسے ہو گئیں؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں آہستہ آہستہ اب ایک جیسی ہوتی نظر آتی ہیں اور ان میں پھوٹ پڑنے اور بغاوت کے امکانات بھی واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کے حالیہ استعفے پر تبصرہ کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ یہ استعفیٰ تو پچھلے سال آ جانا چاہئے تھا، مصطفیٰ انتظار میں تھے کہ ان سے استعفیٰ مانگا جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ انہوں نے سیاسی وفاداری تبدیل کرلی۔ صبر کا مقابلہ تھا۔ جیسے ہی ان سے استعفیٰ مانگا گیا۔

انہوں نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر استعفیٰ دے کر مانگنے والوں کو بھی حیران کردیا۔ وجہ یہ ہے کہ کسی سینیٹر سے استعفیٰ لینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی پیپلز پارٹی نے ماضی میں اپنے ایک سینیٹر بابر اعوان سے استعفیٰ مانگا تھا۔ موصوف وکیل تھے، قانون کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے لہٰذا استعفیٰ مانگنے والوں کو اپنے پیچھے بھگاتے رہے۔

بطور سینیٹرجب ان کی مدت ختم ہونے والی تھی تو ایک دن استعفیٰ دے کر تحریک انصاف میں چلے گئے۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ پیپلز پارٹی رحمان ملک سے بھی خوش نہ تھی۔ ملک صاحب پارٹی قیادت سے پوچھے بغیر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے اور بطور سینیٹر اپنے کنڈکٹ سے بھی پارٹی کو ناراض کر چکے تھے۔ ان سے استعفیٰ مانگا گیا تو انہوں نے مسکرا کر ٹال دیا۔ پھر بیمار ہوگئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔

نیب ترامیم سے ٹرائل میں کرپشن ثابت کرنا مشکل بنا دیا گیا

پارٹی قیادت کا خیال تھا کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر سے استعفیٰ مانگا گیا تو وہ بھی بابر اعوان اور رحمان ملک کی طرح لیت و لعل سے کام لیں گے۔ لیکن مصطفیٰ نواز تو شاید پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، انہوں نے پیامبر سینیٹر فاروق نائیک کو نہ صرف ہاں کہہ دی بلکہ اپنے مستعفی ہونے کا اعلان بھی خود ہی کر دیا۔حامد میر کے مطابق عام خیال یہ ہے کہ استعفے کی فوری وجہ مصطفیٰ کھوکھر کا وہ بیان ہے جو انہوں نے اپنے ایک ساتھی سینیٹر اعظم سواتی کے حق میں دیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں ایک خفیہ ادارے کے افسر نے فون کرکے بتایا ہے کہ اعظم سواتی کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو جعلی ہے لیکن میں نے اس افسر سے کہا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہیں تو میں اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑا ہوں۔

اس بیان کے بعد مصطفیٰ سے استعفیٰ مانگ لیا گیا حالانکہ انکا پارٹی سے اختلاف کافی پرانا تھا۔ کچھ لوگ مصطفیٰ کو ان کے والد حاجی نواز کھوکھر اور چچا امتیاز عرف تاجی کھوکھر کے طرز سیاست سے کافی مختلف پاتے ہیں۔ حاجی نواز کھوکھر قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر تھے اور آصف زرداری کی دوستی میں مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آئے۔

میں نے مشرف دور میں زرداری صاحب اور کھوکھر برادران کو احتساب عدالتوں میں اکٹھے کئی مقدمات بھگتتے دیکھا ہے اور شاید یہی وہ تعلق تھا جس کی وجہ سے مصطفیٰ کو سندھ سے پیپلز پارٹی نے اپنا سینیٹر بنایا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت مصطفیٰ نواز کھوکھر میں صرف ایک وفادار خاندانی دوست تلاش کرتی رہی لیکن اس چنگاری کو نہ دیکھ پائی جسے بہت سے لوگ کافی عرصہ پہلے دیکھ چکے تھے۔

مصطفیٰ جب اسلام آباد کے ایک اسکول میں پڑھتے تھے تو سالانہ چھٹیوں کے مسئلے پر سکول انتظامیہ کے خلاف ساتھی طلبہ کے ساتھ مل کر مظاہرہ کرا دیا۔ اسلام آباد کالج فار بوائز میں پہنچے تو امتحانات وقت پر نہ کرانے کے خلاف ہڑتال کروا دی۔ انکے والد نے محسوس کیا کہ بیٹے کو لیڈر بننے کا شوق ہے چنانچہ انہوں نے اسے ’’بندے کا پتر‘‘ بنانے کے لئے اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ بھیج دیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مصطفیٰ نواز کھوکھر انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے قانونی مشیر بن گئے۔2011ء میں انہیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں مشیر برائے انسانی حقوق مقرر کیا گیا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ مجھے یاد ہے ان دنوں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بہت زیادہ ڈرون حملے ہوتے تھے۔پیپلز پارٹی کی حکومت ان حملوں پر زیادہ شور نہیں مچاتی تھی لیکن مصطفیٰ کھوکھر نہ صرف ڈرون حملوں کی مذمت کرتے بلکہ مطالبہ کرتے کہ حکومت اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھائے۔

مصطفیٰ کے دو ٹوک موقف سے پارٹی قیادت پریشان رہتی تھی لیکن عوامی سطح پر پارٹی کو فائدہ ہوتا اس لئے مصطفیٰ کو برداشت کیاگیا۔ 2018ء میں انہیں سینیٹر بنوا دیا گیا۔ 2019ء میں جب عمران حکومت نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا تو مصطفیٰ شدید ذہنی صدمے سے دو چار ہوئے۔

انہوں نے پارٹی کے اندر رہ کر اختلاف کیا لیکن انہیں خاموش کرا دیا گیا۔ پارٹی کی سیاسی قلابازی پر ان کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ 2020ء میں تربت میں کراچی یونیورسٹی کے ایک طالب علم حیات بلوچ کو ایف سی والوں نے اس کے والدین کے سامنے گولی مار دی۔ مصطفیٰ سینٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے آئی جی ایف سی کو کمیٹی کے اجلاس میں طلب کرکے اپنی پارٹی کے بڑے بڑے جمہوریت پسندوں کو ناراض کرلیا۔

لیکن بریکنگ پوائنٹ تب آیا جب چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں مصطفیٰ نواز اور مصدق ملک نے پولنگ بوتھ کے اندر لگے ہوئے خفیہ کیمرے پکڑ کر طاقتوروں کو ناراض کیا۔ کچھ دن بعد یوسف رضا گیلانی نے عمران کی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کے ووٹ لیکر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کیا تو مصطفیٰ کھوکھر نے اس ’’سودے بازی‘‘ کو مسترد کر دیا۔

چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ان سے سینیٹر شپ واپس لی جائے لیکن پھر انہیں بلاول کی ترجمانی سے ہٹانے پر اکتفا کیا گیا۔ بالکل اسی طرح کچھ دن پہلے مسلم لیگ (ن) نے اعظم نذیر تارڑ کو وزارت قانون سے استعفے پر مجبور کر دیا تھا۔ تارڑ کے استعفیٰ کے بعد مصطفیٰ کو یقین تھا کہ اب ان سے بھی استعفیٰ مانگا جائے گا۔

لہٰذا انہوں نے استعفیٰ کو کسی بوجھ کی طرح اتار پھینکا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ان کی اگلی منزل تحریک انصاف ہے۔ لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ تحریک انصاف میں بھی کئی مصطفیٰ کھوکھر اپنے دل کا بوجھ اتارنے کی تیاری میں ہیں۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں فرق ختم ہو چکا ہے اور ان تینوں میں بغاوت ہونے جا رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button