کیا عدالت استعفوں پر عمران کو پھر ریلیف دے گی؟

قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب سے تحریک انصاف کے 43 مزید اراکین قومی اسمبلی کے استعفے قبول کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا عدالت سپیکر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے یا نہیں؟ زیادہ تر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ سپیکر کا فیصلہ رولنگ کے مترادف ہوتا ہے جسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ویسے بھی سپیکر نے 43 اراکین کے استعفے پچھلی تاریخ میں منظور کیے تھے جن کا اعلان اب کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ سپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب سے 43 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے جانے سے ایک روز پہلے انہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنے استعفے واپس لینا چاہتے ہیں، لیکن سپیکر اپنے چیمبر اور گھر میں دستیاب نہیں۔ ان اراکین نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی آگاہ کر دیا تھا کہ وہ اب مستعفی ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور اپنے استعفے واپس لے رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سپیکر نے مستعفی ہونے والے اراکین اسمبلی کا 10 ماہ تک انتظار کیا جس کے بعد استعفوں کو قبول کیا گیا۔ اب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 27 رہ گئی ہے جن میں اکثریت منحرف ارکان کی ہے جو کہ راجہ ریاض کی سربراہی میں عمران خان سے بغاوت کر چکے ہیں۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے منتخب اراکین کی تعداد 151 تھی جن میں سے 124 کے قبول کر لیے گئے ہیں اور یوں عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں راجہ ریاض کی بجائے اپنا اپوزیشن لیڈر بنانے کی کوشش ناکام ہو گئی ہے۔ قومی اسمبلی کے ذرائع کے مطابق اگر تحریک انصاف سپیکر کے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں جاتی ہے تو اس کو کوئی ریلیف ملنے کا امکان اس لئے نہیں کی ان اراکین کے استعفے سپیکر نے چند دن پہلے الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیے تھے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے 35 اراکین کے استعفے منظور کیے تھے جس کے بعد مستعفی پی ٹی آئی حامی اراکین قومی اسمبلی کی تعداد 81 ہو گئی تھی جن میں پارٹی کے حمایتی شیخ رشید کا استعفٰی بھی شامل تھا۔ 24 جنوری کو مزید 43 ارکان اسمبلی کے استعفے منظور ہونے کے بعد اب پی ٹی آئی کے فارغ ہو جانے والے کل اراکین کی تعداد 124 ہو گئی ہے۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے استعفے منظور ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات محدود ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 64 کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس صرف ڈی نوٹیفائی کرنے کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اگر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے تو وہ الیکشن کمیشن کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفیکیشن روکنے یا واپس لینے کے احکامات دے سکتی ہے لیکن اگر سپیکر نے واقعی استعفے چند روز پہلے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئے تھے تو پھر ایسا ہونا بھی نا ممکن ہے۔ سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس اب ہائی کورٹ کا فورم موجود ہے اور وہاں اپیل کر کے سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع لیا جا سکتا ہے تاہم ارکان اسمبلی کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے سپیکر کواستعفے نہیں بھیجے یا الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئے جانے سے پہلے ہی واپس لے لیے تھے۔  انہوں نے بتایا کہ ’استعفے کی منظوری کے لیے شرط یہی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی مطمئن ہوں کہ استعفیٰ کسی دباؤ کے بغیر دیا گیا ہے اور جعلی نہ ہو۔

سینئر قانون دان شاہ خاور سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس عدالت جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تاہم عدالت میں بھی اس معاملے پر پی ٹی آئی کو ریلیف ملتا نظر نہیں آ رہا۔انہوں نے کہا کہ سپیکر کے اقدام کو عدالت میں چیلنج کرنے سے استثنیٰ حاصل ہے تاہم آئین کی خلاف ورزی کی صورت میں عدالت سپیکر کے اقدام کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے۔قانون دان شاہ خاور کے مطابق استعفوں کا معاملہ متنازع ہو چکا ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ ماضی میں بھی پارلیمان کے متنازع معاملوں میں مداخلت کرنے سے باز رہی ہے اس لیے پی ٹی آئی کو ریلیف ملنا عدالت کے موڈ پر بھی منحصر ہے۔دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت 172 لوگوں کی حمایت کھو چکی ہے اور حکومت بچانے کے لیے لوٹوں پر انحصار کر رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button