پرویز الٰہی کے عمرانڈو ہونے کے بعد ق لیگ کا کیا بنے گا؟

سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی ساتھیوں سمیت عمرانڈو ہو جانے کے باوجود قانونی اور آئینی طور پر پاکستان مسلم لیگ ق بطور جماعت اپنی جگہ موجود ضرور ہے لیکن قومی اسمبلی میں اس کے پاس دو منتخب اور ایک خواتین نشست باقی رہ گئی ہے جبکہ مستقبل میں پارلیمانی سیاست میں ق لیگ کا وجود برقرار رکھنا چودھری شجاعت حسین کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے کیونکہ چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی چوہدری سالک حسین کی نشست بھی بنیادی طور پر چوہدری پرویز الٰہی کی خالی کردہ نشست ہے جہاں سے وہ عام انتخابات میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں اسے خالی کیا تھا جبکہ بہاولپور سے طارق بشیر چیمہ کی نشست کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔

 

اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ صورت حال میں مسلم لیگ ق کا مستقبل کیا ہوگا اور کیا وہ انتخابی میدان میں اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی؟ اس کے لیے چوہدری شجاعت حسین کو کیا تگ و دو کرنا پڑے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت جنم لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ق کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’چوہدری شجاعت حسین صورت حال کو لے کر کافی سنجیدہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے ملکی سیاست میں فعال کردار ادا کرے۔ اس مقصد کے لیے جہاں وہ اپنے صاحبزادوں سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں وہیں چوہدری پرویز الٰہی کی وجہ سے پارٹی سے پیچھے ہٹ جانے والے رہنماؤں کی واپسی کیلئے بھی پر امید ہیں۔‘ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی کچھ سیاسی شخصیات جلد ہی ق لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کرسکتی ہیں۔

لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حکومت کے قیام سے قبل جب چوہدری پرویز الٰہی کو پی ڈی ایم کی جانب سے وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس سے وہ پیچھے ہٹ گئے تھے اس وقت چوہدری شجاعت حسین کو ہی یہ ٹاسک ملا تھا کہ وہ تمام مسلم لیگوں کے اتحاد کی کوشش کریں اور چوہدری شجاعت حسین نے جونیجو لیگ، مسلم لیگ فنکشنل اور مسلم لیگ قیوم گروپ کو انضمام کے لیے تیار بھی کر لیا تھا۔ ممکن ہے کہ انتخابات کے قریب پہنچ کر تمام مسلم لیگیں متحد ہوجائیں اور یوں ق لیگ متحدہ مسلم لیگ کا حصہ بن جائے۔

تاہم مسلم لیگ ق کے ترجمان غلام مصطفیٰ ملک کے مطابق ’مسلم لیگ ق نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے گی بلکہ انتخابی میدان میں اپنے امیدوار بھی اتارے گی۔کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے ساتھ ان دنوں ق لیگ اور چوہدری شجاعت حسین کے تعلقات اچھے ہیں۔ شہباز شریف کی کابینہ میں مسلم لیگ ق موجود ہے تو اس بات کے امکانات ہیں کہ مسلم لیگ ن یا کسی دوسری جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد کر لیا جائے لیکن فوری طور ایسی کوئی تجویز زیرغور نہیں آئی۔

 

اس حوالے سے مسلم لیگوں کی سیاست کو انتہائی قریب سے دیکھنے والے تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ق لیگ کوئی نظریاتی جماعت نہیں ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی جماعت تھی۔ چودھری برادران اس جماعت کے ابتدائی ارکان میں بھی شامل نہیں تھے بلکہ چھ ماہ بعد شامل ہوئے تھے۔ اس وقت سوال ق لیگ کے مستقبل سے زیادہ یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف میں کتنا عرصہ سروائیو کرسکیں گے؟‘انھوں نے کہا کہ ق لیگ کی سیاست کا انحصار چوہدری برادران کے اتحاد پر تھا۔ اگر یہ متحد نہیں ہوتے تو ق لیگ ایک علامتی جماعت رہ جائے گی۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کے درمیان اب بھی بات چیت موجود ہے۔ کزنز کی لڑائی کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے جسے ختم کیا جا سکتا ہے لیکن چودھری برادران اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کے بغیر سیاست نہیں کرسکتے۔‘انھوں نے کہا کہ ’پرویز الٰہی جانتے ہیں کہ ان کی سیاسی جماعت سے زیادہ خاندانی اتحاد اہم ہے۔ ایک اکیلا اور دو گیارہ کے مصداق چودھریوں نے اب تک اپنی سیاست بچائی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین نوابزادہ نصراللہ کے بعد سب سے زیادہ قابل احترام سیاسی رہنما ہیں۔ پورے ملک کی سیاسی قیادت ان کے ایک فون پر جمع ہو جاتی ہے اور چودھری پرویز الٰہی کو اس بات کا ادراک ہے۔

 

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت مسلم لیگوں کے اتحاد کے داعی ہیں اور یہ کوشش وہ مشرف دور سے کر رہے ہیں۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد بھی یہ کوشش ہوئی تھی لیکن بوجوہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس لیے اب بھی غالب امکان ہے کہ چوہدری شجاعت باقی مسلم لیگوں کو ساتھ ملا کر متحدہ مسلم لیگوں کے اتحاد میں کامیاب ہوجائیں۔

 

اس حوالے سے تجزیہ کار اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ق لیگ کے وجود کا اب باقی رہنا کافی محال ہے۔ ان کی اصل طاقت اب تحریک انصاف میں چلی گئی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو ادراک تھا کہ اب ق لیگ میں رہتے ہوئے مستقبل میں ان کی سیاست مشکلات کا شکار ہوگی۔‘انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح اب چوہدری شجاعت اور ان کے ساتھیوں کے لیے بھی انتخابی سیاست میں اپنا حصہ برقرار رکھنا مشکل ہوگا اور انھیں ن لیگ کے ساتھ اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا پھر ن لیگ میں انضمام کے آپشنز دیکھنا ہوں گے۔‘اجمل جامی کا کہنا تھا کہ ’میرے ذاتی خیال میں چودھری شجاعت انضمام کے بجائے اتحاد کو ترجیح دیں گے۔ لیکن یہ طے ہے کہ ق لیگ اب صرف براے نام ہی ایک جماعت رہ جائے گی۔‘

عمران خان کی جیل بھرو نامی فلم ناکام کیوں رہے گی

Related Articles

Back to top button