کیا پرویز الٰہی نے عمرانڈو بن کر سیاسی خودکشی کرلی؟

زیرک سیاستدان چودھری شجاعت کی کمال مہربانیوں اور سیاسی فکر سے کامیابی کے زینے چڑھنے والے چودھری پرویز الٰہی نے بیٹے کے مشورے اور اقتدار کی ہوس میں عمرانڈو ہو کر ایسی سیاسی چال چلی ہے جس کے بعد ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے اس فیصلے سے چودھری ظہور الٰہی کی میراث پر بھی گہری چوٹ لگائی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی تحریک انصاف میں شمولیت سے جہاں مسلم لیگ ق کے ٹوٹنے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں وہیں چودھری خاندان میں بھی تفریق واضح نظر آ رہی ہے۔ حالانکہ چودھری برداران کی سیاست کا سب سے مضبوط پہلو ان کی خاندانی اقدار ہی تھیں جن کو چھوڑ کر چودھری پرویز الٰہی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار چکے ہیں۔

 

ہمارے ملک کی سیاست میں کوئی اس بات سے واقف نہ تھا کہ 1957ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ گجرات میں بلا مقابلہ منتخب ہونے والا ایک رکن پاکستان کی قومی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے گا اور اس کا خاندان ملک پرحکمرانی بھی کرے گا۔ امر تسر میں تین کھڈیوں کے مالک دو بھائی اس قدر باوسائل ہوں گے کہ ایک سیاست میں بھرپور کر دار ادا کرے گا اور دوسرا کاروبار پر تمام توجہ مرکوز کیے رکھے گا۔نت گاؤں گجرات کا یہ خاندان چوہدری ظہور الٰہی کی سیاست کے باعث مشہور ہوا۔ چوہدری ظہور الٰہی تعلق نبھانے اور لڑائی لڑنے کی دونوں صلاحیتوں سے خوب واقف تھے۔ انہوں نے کالا باغ کے امیر محمد خان، گورنر مغربی پاکستان کے ساتھ بھی دونوں طرح کے تعلق نبھائے اور یہی حال ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رہا۔ پیر پگاڑا کے ساتھ بھی معاملات کچھ ایسے ہی رہے تاہم چوہدری ظہور الٰہی نے قومی اسمبلی کے الیکشن ہار کر اور جیت کر اپنا کر دار نبھانے کی ہرممکن کوشش کی۔

 

چودھری ظہور الٰہی کے قتل سے قبل ہی 1977ء میں چوہدری شجاعت حسین کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگر انتخاب ہونے نا ہونے ایک برابر رہے اور خالی پولنگ اسٹیشن اپنی کہانی خود بیان کررہے تھے۔ 1983ء میں چوہدری پرویز الٰہی ڈسٹرکٹ کونسل گجرات کے چیئرمین تھے اور 1985ء کے صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی جیت گئے تھے۔ اس وقت بلدیاتی اور قومی و صوبائی اسمبلی پر بیک وقت الیکشن لڑنے کی پابندی نہ تھی۔1985 میں دل تو چاہتا تھا کہ وزیرِاعلیٰ بن جائیں تاہم میاں نواز شریف، ملک اللہ یار، چوہدری عبد الغفور اور بعض دیگر بھی امیدوار تھے۔ گورنر کے پاس وزیرِاعلیٰ نامزد کر نے کا اختیار تھا اور جنرل جیلانی نے میاں نوازشریف کو وزیرِاعلیٰ نامزد کروایا۔ میاں منظور وٹو اسپیکر بنے مگر ضلع کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔

 

میاں نواز شریف کا اپنا طرز حکمرانی اور پسند و ناپسند تھی۔ وہ پیر پگاڑا اور محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کا رکن بننے سے انکاری تھے مگر سیاست کے تقاضے کچھ اور بھی ہوتے ہیں۔ 1986ء میں پرویز الٰہی نے وزیرِاعلیٰ کے خلاف زبان کھولی اور پنجاب میں حکمران جماعت کے اندر واضح گروپ بندی ہوگئی۔ مخدوم الطاف احمد، ملک اللہ یار اور بعض دیگر اہم ارکان اس سفر میں شریک ہوئے۔ پیر پگاڑا اور جنرل ضیا الحق کی آشیرباد میاں نواز شریف کی بجائے پرویز الٰہی کی طرف تھی تاہم وزیرِاعظم محمد خان جونیجو کا اپنے قریبی ارکان کو کہنا تھا کہ جمہوریت کی کچی دیوار سے اینٹ نکالنا اس کو گرانے کے برابر ہے اس لیے وہ کسی صورت نواز شریف کو ہٹانے نہ دیں گے۔

 

چوہدری شجاعت حسین بیرون ملک سے واپس آئے تو انہوں نے اس آگ کو ٹھنڈا کیا، یوں معاملات میں پھر سدھار آنا شرع ہوا بعدازاں معاملات طے پائے اور محمد نواز شریف کو دورہ گجرات کی دعوت دی گئی ان کی گاڑی کو چلنے نہ دیا گیا بلکہ انہیں کندھوں پر اٹھا کر سفر طے کروایا گیا۔ جب شہباز شریف پہلی بار وزیرِاعلیٰ بنے تو بقول پرویز الٰہی ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ انھیں وزیر اعلٰی بنایا جائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا اور وہ اسپیکر بنائے گئے۔1999ء کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد یہ بات بہت واضح تھی کہ مسلم لیگ کے اندر ذہنی تفریق ہے اور چوہدری صاحبان کی رائے ہے کہ مارشل لا سے لڑنے کی بجائے مصالحت کا راستہ نکالا جائے۔1977ء کے مارشل لا کے بعد بھی اس خاندان نے مارشل لا کا ساتھ دینے کی کوشش کی تھی۔ ایک طرف مقدمات کا سامنا تھا دوسری طرف تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی یار دوست کہہ رہے تھے۔

 

میاں نواز شریف کی جلاوطنی سے قبل ہی یہ محسوس ہوگیا تھا کہ مسلم لیگ اب ایک ہوکر نہیں رہ سکتی۔ جنرل مشرف کی پہلی خواہش راجا ظفر الحق تھے جو پہلے بھی مارشل لا ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین رہ چکے تھے، دوسری ترجیح میاں محمد اظہر اور تیسری سید فخر امام تھے۔ میاں اظہر کے لیے یہ سب کام کرنا آسان نہ تھا اور نہ ہی وہ اس میں پورے اتر سکے اس لیے چوہدری صاحبان کو ان کے ساتھ منسلک کرکے کافی بااختیار بنادیا گیا۔

 

2013ء میں شریف خاندان اور چوہدری صاحبان کے درمیان معاملات طے ہوتے ہوتے رہ گئے تھے اور چوہدری شجاعت ہر صورت قابل قبول تھے بالآخر جب معاملات طے نہ ہوئے تو پرویز الٰہی جن کو محترمہ اپنے قتل سے قبل اپنے مبینہ قاتلوں میں شامل کرکے دنیا سے رخصت ہوئی تھیں انہوں نے مرکز سے مسلم لیگ (ن) کے الگ ہونے کے بعد آصف علی زرداری سے معافی مانگی اور ق لیگ مرکزی حکومت میں شامل ہوئی۔ یوں پرویز الٰہی غیر آئینی اور غیر قانونی نائب وزیرِاعظم بن گئے۔

 

2008ء میں مسلم لیگ (ق) کو کافی نشستیں مل جاتیں اگر محترمہ بے نظیر بھٹو قتل نہ ہوتیں۔ پرویز الٰہی تب وزیرِاعظم بنناچاہتے تھے اور اپنے صاحبزادے کو وزیرِاعلیٰ بنانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے متوقع امیدواروں کے خلاف آزاد امیدواروں کی لائن لگادی تھی۔ اگر محترمہ شہید نہ ہوتیں توپرویز مشرف کے ساتھ اقتدار کی تقسیم کا فارمولا بن چکا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) صدر پرویز مشرف کو آل پاکستان مسلم لیگ کے نام پر لوٹائی جانی تھی، مگر اس سے بھی انحراف کردیا گیا۔

 

بہرحال اب چوہدری پرویز الٰہی نے سب سے الگ تھلگ ہوکر اپنے محسن سیاسی رہبر، چچازاد بھائی اور بہنوئی چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ بھی اختلافات پیدا کرلیے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کا دستور پوری طرح چوہدری شجاعت کا ساتھ دیتا ہے۔ پرویز الٰہی اپنے محسن چودھری شجاعت کی رفاقت چھوڑ کر صدر بنائے جانے کے لارے پر تحریک انصاف کو پیارے تو ہو گئے ہیں  لیکن انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان سے پہلے پارٹی کے ایک صدر تو مخدوم جاوید ہاشمی بھی تھے۔سیاسی مبصرین کے مطابق ایک بات طے ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کیلئے عمران خان کی نااہلی کے بعد تحریک انصاف پر قبضہ منتہائے مقصود توہوسکتا ہے لیکن یہ منزل کس کو ملے گی؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

ڈالر کے انٹربینک ریٹ 260 روپے سے بھی نیچے آگئے

Related Articles

Back to top button