پرویز الٰہی کی بازی الٹ گئی، حمزہ وزیر اعلیٰ برقرار

ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان 21 جولائی کو دو طویل ملاقاتوں نے بازی پلٹ دی جس کے بعد حمزہ شہباز وزارت اعلیٰ پر برقرار رہنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ آصف زرداری نے ان ملاقاتوں میں چودھری شجاعت حسین کو درخواست کی کہ وہ قاف لیگ کے 10 ممبران پنجاب اسمبلی کو پرویز الٰہی کی بجائے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈالنے کا حکم دیں کیونکہ پرویز نے پی ڈی ایم کی قیادت کے ساتھ کمٹمنٹ دینے کے باوجود دغا کیا تھا۔ شجاعت حسین کو باور کرایا گیا کہ وہ وفاق میں پی ڈی ایم کے اتحادی ہیں اور اگر پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہوتی ہے تو پھر مرکزی حکومت کے خاتمے کا بھی خدشہ پیدا ہو جائے گا جس کی ذمہ داری قاف لیگ پر آئے گی۔
یاد رہے کہ شجاعت حسین پہلے ہی وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں پرویز الٰہی کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے چنانچہ آصف زرداری نے ان سے دو روز میں تین طویل ملاقاتیں کرکے درخواست کی کہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کریں اور پرویز کی بجائے حمزہ کا ساتھ دیں۔ آصف زرداری نے شجاعت کو یاد دلایا کہ ماضی میں جب پی ڈی ایم نے پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنایا تھا تو وہ اس معاملے میں ضامن تھے لیکن پرویز الٰہی نے انکی ضمانت کے باوجود انہیں دھوکہ دیا اور عمران سے ہاتھ ملا لیا، اس لیے اب شجاعت کو اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے پی ڈی ایم کا ساتھ دینا چاہیے اور حمزہ کی حمایت کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی پرویز الٰہی کو ووٹ دینے کا مطلب عمران خان کو ووٹ دینا ہو گا جس کو انہوں نے اپنا نیا قائد مان لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رات گئے شجاعت اور زرداری کی دوسری ملاقات میں بریک تھرو ہو گیا تھا لیکن باضابطہ اعلان آج وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن کےدوران ہوا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن سے پہلے چوہدری شجاعت پارٹی سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ باقاعدہ تحریری طور پر ہدایت جاری کریں گے کہ قاف لیگ نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینا ہے یا سرے ووٹ استعمال ہی نہیں کرنا؟ ان کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کی بجائے حمزہ شہباز کا ساتھ دینا چوہدری شجاعت حسین کے لئے ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن بالآخر انہوں نے اس پر آمادگی ظاہر کردی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے بعد اب اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہو گا اور وہ ڈی سیٹ ہو جائے گا جیسا کہ 20 پی ٹی آئی اراکین پنجاب اسمبلی کے ساتھ حال ہی میں ہو چکا ہے۔ ان 20 اراکین کی نا اہلی کے نتیجے میں ضمنی الیکشن ہوئے اور حمزہ اپنی اکثریت کھو بیٹھے۔
سدھو موسے والا کے قاتل سلمان خان کو کیوں مارنا چاہتے تھے؟
لہذا قاف لیگی قیادت کی جانب سے حمزہ کا ساتھ دینے کے اعلان کے باوجود ق لیگ کے ارکان نے پرویز الٰہی کو ووٹ دیئےجو شمار نہ ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں حمزہ کا ساتھ دینے کا کوئی بھی طریقہ ہو سکتا ہے۔ اگر قاف لیگ کے صدر چوہدری شجاعت فیس سیونگ رکھتے ہوئے حمزہ کی حمایت کرنا چاہتے تو یہ فیصلہ بھی کیا جا سکتا تھا کہ قاف لیگ وزارت اعلیٰ کے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دے گی، اس صورت میں بھی پرویز الٰہی کے دس ووٹ کم ہو جاتے۔
یاد رہے کے اس سے قبل پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کے پاس 180 جبکہ پرویز الٰہی کے پاس 188 ووٹ تھے۔ ایسے میں اگر قاف لیگی قیادت اپنے دس اراکین کو پرویز الٰہی کی بجائے حمزہ کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ہدایت کرتی یا کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کرتی تو پرویز کے دس ووٹ کم ہو جاتے اور 178 رہ جاتے۔ یوں حمزہ دو ووٹوں کی برتری سے جیت جاتے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے مقابلہ ٹائی ہو جاتا توڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری اپنا کاسٹنگ ووٹ حمزہ شہباز کے حق میں ڈال کر بازی پلٹ سکتے تھے۔ دوسری جانب یہ اطلاعات بھی تھیں کہ شہباز شریف نے چوہدری نثار سے رابطہ کر کے انہیں حمزہ کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے آمادہ کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ رات گئے چودھری شجاعت سے میٹنگ کے بعد جب آصف علی زرداری ان کے گھر سے روانہ ہوئے تو گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے وکٹری کا نشان بنایا۔ ایسے میں اب تمام نگاہوں کا مرکز چوہدری شجاعت حسین تھے جن کے ہاتھ میں اس وقت وزارت اعلیٰ پنجاب کی کنجی تھی۔
خیال رہے کہ چوہدری شجاعت کے صاحبزادے سالک حسین اور ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ بھی اس وقت شہباز شریف کی کابینہ میں وفاقی وزیر ہیں۔ لیکن پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت اپنی خاندانی روایات کا پاس کریں گے اور اس حد تک نہیں جائیں گے۔ شیخ رشید احمد کا بھی کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت کبھی اپنے خون کو دھوکہ نہیں دیں گے اور ووٹ پرویز الٰہی کو ہی دلوائیں گے۔ لیکن شجاعت کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویزالٰہی اور مونس الٰہی پہلے ہی خاندانی روایات کو پامال کر چکے ہیں اور اپنے خون کو بھی دھوکہ دے چکے ہیں لہذا جذباتی ڈائیلاگ مارنے کی ضرورت نہیں! اب جو بھی فیصلہ ہوگا میرٹ پر ہو گا اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔ شجاعت کے قریبی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب پرویز الٰہی نے عمران خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو انہیں اعتماد میں نہیں لیا تھا لہذا پرویز الٰہی کے فیصلے کو شجاعت کی تائید حاصل نہیں تھی۔ ویسے بھی اب پرویز الٰہی شجاعت حسین کی بجائے عمران خان کو اپنا قائد مانتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور پرویز الٰہی کی نظر میں 22 جولائی کے الیکشن میں موجودہ عددی اکثریت کے اعتبار سے بظاہر تو کہانی سیدھی تھی لیکن سیاسی اعتبار سے یہ کہانی کافی ٹیڑھی تھی کیونکہ شجاعت حسین کی جانب سے ایک بڑا اعلان ہونا ابھی باقی تھا۔ یاد رہے کہ یکم جولائی کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہو گا۔ تحریک انصاف نے دعویٰ کیا کہ 21 جولائی کو چیئرمین عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے پی ٹی آئی اور ق لیگ پنجاب کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں 186 ارکان شریک ہوئے۔ تاہم نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں پی ٹی آئی کے کم ازکم 13 اراکین پنجاب اسمبلی موجود نہیں تھے۔ ن لیگ کی جانب سے حتمی نمبرز جاری نہیں کیے گئے تھے البتہ عطا تارڈ کا کہنا تھا کہ ان کی تعداد 180 ہے جس میں 22 جولائی کو اضافہ ہو جائے گا اور انشاءاللہ حمزہ شہباز وزارت پر برقرار رہیں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اسوقت ٹرمپ کارڈ چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نےوزیر اعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں کنگ میکر کا کردار ادا کیا۔