نواز شریف نے حکومت کو پارٹی سے علیحدہ کیوں کر دیا؟

عمران خان حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے برسر اقتدارآنے کے بعد سے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے حکومت اور اپنی جماعت نواز لیگ کو علیحدہ علیحدہ کرنے کی جو پالیسی اپنائی تھی اب اس پر تیزی سے عملدرآمد ہوتا نظر آرہا ہے۔

لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکومت کی ناکامیوں کا ڈھول نواز لیگ کے گلے میں نہ پڑے لہٰذا مریم نواز شریف نے واضح انداز میں حکومت سے دوری اختیار کر لی ہے۔ اسی وجہ سے نواز شریف اور مریم نواز پچھلے کچھ عرصے سے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر اپنی ہی حکومت کو بذریعہ ٹویٹس تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ ان دونوں کی دیکھا دیکھی اب مسلم لیگ کی دوسری درجے کی قیادت بھی مسلسل مفتاح اسماعیل کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے جنہیں کہ شہباز شریف کا بندہ سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پارٹی میں دو دھڑے ہیں، ایک نواز شریف کی سوچ لے کر چلنے والا مزاحمتی دھڑا ہے جبکہ دوسرا شہباز شریف کی سوچ آگے بڑھانے والا مفاہمتی دھڑا ہے جس کے زیادہ تر حامی اس وقت حکومت کا حصہ ہیں۔

کچھ پارٹی ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت اور جماعت کوعلیحدہ علیحدہ کرنا دونوں بھائیوں کا ایک شعوری فیصلہ ہے تاکہ اگلے الیکشن میں نواز لیگ کو سیاسی نقصان سے بچایا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک نواز شریف وطن واپس نہیں آتے، پارٹی کے معاملات مریم نواز شریف سنبھالیں گی اور اس مقصد کے لیے ماڈل ٹاؤن میں ان کے لیے ایک نیا دفتر تعمیر کر دیا گیا ہے جہاں سے وہ پارٹی کے معاملات چلائیں گی۔

ریاست شہریوں کو حقوق دینے میں ناکام رہی

یاد رہے کہ سیلاب متاثرین کو امداد پہنچانے اور انکی اشک شوئی کے لیے تمام سیاسی جماعتیں، این جی اوز، حکومتی ادارے اور فلاحی تنظیمیں حرکت میں ہیں۔ تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی سیلاب زدگان کے لیے حکمت عملی سب سے الگ تھلگ لگتی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ شمالی علاقوں کا نہ صرف روزانہ کی بنیادوں پر دورہ کر رہے ہیں بلکہ امداد کی تقسیم اور انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے احکامات بھی دے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب جماعت کی نائب صدر مریم نواز جنوبی پنجاب میں سرگرم عمل ہیں۔ مریم نواز کے جنوبی پنجاب کے پانچ روزہ دورے کا شیڈیول بھی جاری کیا جا چکا ہے جس کے مطابق مریم نواز ایک درجن سے زائد مقامات پر جا کر نہ صرف سیلاب سے متاثرہ بے گھر افراد سے ملاقاتیں کر رہی ہیں بلکہ ان میں امداد بھی تقسیم کر رہی ہیں۔ ایسے میں کئی سوالات سامنے آئے ہیں کہ مریم نواز اور شہباز شریف الگ الگ سیلاب زدہ علاقوں میں کیوں جا رہے ہیں اور باقی سینئر قیادت خاص طورپر حمزہ شہباز اس ساری مہم میں کہاں غائب ہیں؟ ان سوالوں کا جواب پارٹی قائد نواز شریف کے حالیہ ویڈیو خطاب سے بھی ملتا ہے جس میں انہوں نے لیگی کارکنوں کو امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ہدایت کی تو ساتھ ہی مریم نواز کا نام لے کر کہا کہ وہ خود سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں۔انہوں نے نام لے کر یہ ہدایات سوائے مریم نواز کے کسی کو نہیں دیں۔ اس کے فوری بعد ہی مریم نواز نے اپنے دورے کو ترتیب دیا اور لاہور سے ملتان روانہ ہو گئیں۔

سینئر تجزیہ کار زاہد حسین سمجھتے ہیں کہ جس طریقے سے ن لیگ امدادی مہم کو چلا رہی ہے اس سے اس جماعت کے اگلے سیاسی لائحہ عمل کا تعین کرنا مشکل نہیں۔ اس وقت اگر آپ دیکھیں کہ سوشل میڈیا پاکستان میں کیسے کام کر رہا ہے تو کسی بھی بڑے سیاسی رہنما کا اس وقت گھر بیٹھے رہنا اور سیلاب زدہ علاقوں میں نظر نہ آنا خود ان کے خلاف ایک چارج شیٹ بن سکتی ہے۔ کیونکہ سیلاب زدگان کی کہانیاں کافی جذباتی ہیں اس میں کوئی شعوری سیاستدان اس پورے عمل سے عملی طور پرلاتعلق نہیں رہ سکتا۔ زاہد حسین نے ن لیگ کی اندرونی اور آئندہ کی سیاسی حکمت عملی ہے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کی پچھلے چند سالوں کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہ کارکنوں اور عوام سے براہ راست رابطے اور ان میں گھل مل جانے کو ترجیح دیتی ہیں جس سے ان کو سیاسی افق پر فائدہ ہی ہو گا نقصان نہیں۔’جہاں تک حمزہ شہباز کا تعلق ہے تو ان کی پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ حالیہ کارکردگی نے پارٹی کے اندر ان کے نمبر کم کیے ہیں۔ ان سے توقع یا امید پارٹی کو بہت زیادہ تھی لیکن وہ ان امیدوں پر پورا اترنے میں کسی حد تک ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج کل منظر نامے سے غائب نظر آتے ہیں اور لندن میں اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز کی جانب سے سیلاب زدگان کے لیے علیحدہ علیحدہ سرگرمیاں بھی اسی پالیسی کا اظہار ہیں جسکے تحت حکومتی اور جماعتی معاملات کو علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ کا مزاحمتی دھڑا نواز شریف کی زیر قیادت یہ سوچ رکھتا ہے کہ ماضی کے الیکشنز کو دیکھا جائے تو کبھی بھی اقتدار کی جماعت عام انتخابات میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران کی پونے چار سالہ ناکامیوں کا مدعا پی ڈی ایم اتحاد نے حکومت حاصل کرکے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے لہذا اب اسے کچھ کر کے دکھانا ہوگا ورنہ اگلے الیکشن میں عوام کا ردعمل بھگتنا ہوگا۔ ایسے میں نواز شریف کو بہتر یہی لگا کہ اپنی پارٹی کو حکومت سے علیحدہ کر لیا جائے تا کہ اس کی ناکامیوں کا سایہ نواز لیگ پر نہ پڑے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف اگلے الیکشن سے پہلے لازمی وطن واپس آ کر الیکشن مہم میں اپنی بیٹی کے ہمراہ حصہ لیں گے۔ انہیں امید ہے کہ تب تک شہباز حکومت بھی عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور فراہم کر چکی ہوگی لہذا اگلے عام انتخابات میں انکی جماعت کی کامیابی کے امکانات کافی بہتر ہو جائیں گے۔

Related Articles

Back to top button