بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں سیاسی جماعتیں فارغ کیوں ہوئیں؟

بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ایک بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کی کامیابی اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے بعد یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ صوبے کے عوام سیاسی جماعتوں سے نالاں ہو چکے ہی

ں۔ بلدیاتی الیکشن کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق صوبے میں اب تک آزاد امیدواروں کا پلڑا بھاری ہے اور وہ 1700 سے زائد نشستیں اپنے نام کرچکے ہیں۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے کامیاب امیدواروں کی تعداد صرف 400 کے قریب ہے جس سے یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ صوبے کے عوام سیاسی جماعتوں سے نالاں ہیں۔

بلوچستان میں کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے حملوں کے خطرات کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 29 مئی کو مکمل ہوا۔ صوبے کے 32 اضلاع میں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے والوں کو زیادہ کامیابی ملی ہے۔ صوبے میں یہ انتخابات نو سال کے وقفے کے بعد منعقد ہوئے ہیں۔
البتہ کچھ سیاسی مبصرین اس بات سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام نے سیاسی جماعتوں کی بجائے آزاد امیدواروں کو فوقیت دی۔ ان کا مؤقف ہے کہ بلوچستان میں آزاد امیدواروں کا بڑی تعداد میں جیتنے کا عمل کوئی نیا نہیں ہے۔ سینئر صحافی اسد بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سےوابستہ رہنماؤں نے پارٹی ٹکٹ لینے کے بجائے آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے صوبے میں اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔

کیا شہباز شریف سازشی عمران کا مقابلہ کر پائیں گے؟

حکمران جماعت کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے ضلع چاغی میں بلدیاتی انتخابات میں پارٹی رہنماؤں اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور محمد حسنی سے وابستہ رہنماؤں نے ‘خان سنجرانی’ اور ‘الفتح پینلز’ کے نام سے آزاد حیثیت میں ایک دوسرے کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا۔ ضلع کوہلو سے نوابزادہ گزین مری، جو یورپ میں مقیم بی ایل اے کے بانی رہنما حیربیار مری کے بھائی ہیں، کے حمایت یافتہ پینل نے آزاد حیثیت میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی۔

بلوچستان میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر احمد علی جان کہتے ہیں ”پاکستان میں جنوبی پنجاب، شمالی سندھ اور سابق قبائلی علاقوں کی طرح بلوچستان کے متعدد اضلاع میں روایتی سیاسی و قبائلی خاندانوں، جنہیں الیکٹیبلز بھی کہا جاتا ہے، سے وابستہ افراد کی اکثریت حالیہ انتخابات میں آزاد حیثیت یا بلا مقابلہ منتخب ہو کر آئی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی، ضلع نوشکی، چاغی، کوہلو، بارکھان، سبی، جھل مگسی جیسے قبائلی اثرونفوس والے اضلاع میں آزاد امیدوار ہی منتخب ہوکر آتے ہیں جو بعد میں حکمراں جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان کے بقول بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات کی وجہ سے متعدد وزرا نے بلدیاتی انتخابات میں آزاد حیثیت میں اپنے پینل اتارے تھے۔

ماضی میں ہونے والے عام اور بلدیاتی انتخابات کی طر ح اس مرتبہ بھی یہ خدشات تھے کہ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر نے 3 مئی کو ایک اعلامیے میں بلدیاتی انتخابات کے عمل کو ‘جبری قبضے کونچلی سطح پرمنظم کرنے کا نوآبادیاتی منصوبہ’ قراردیتے ہوئےمخالفت کا اعلان کیا تھا۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ریاستِ پاکستان ‘نام نہاد’ بلدیاتی انتخابات سے جن کٹھ پتلی نمائندوں کو کرسیوں پربٹھانا چاہتی ہے، ان کا مقصد نہ تو جمہوریت کی تقویت ہے اورنہ ہی عوامی مسائل کاحل۔

خیال رہے کہ براس کا اتحاد بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی، اللہ نذر کی بلوچ لبریشن فرنٹ، گلزار امام کی بلوچ نیشنلسٹ آرمی اور سابق رکن اسمبلی میر بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز پرمشتمل ہے۔

19 مئی کو بھی’براس’ کی رکن تنظیموں بی ایل اے ، بی ایل ایف اور بی این اے کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیوں میں صوبے کے مختلف اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے عمل کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
بی ایل اے کی جانب سے کہا گیا کہ ‘ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت اور ڈھنگ جب کہ ضلع خضدار کے علاقے زہری کہن کے علاقوں کے اسکولوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز کو دستی بم حملوں سے نشانہ بنایا گیا۔’ اسی طرح بی ایل ایف کی جانب سے ضلع خضدار کے علاقے سریج گریشہ جب کہ بی این اے کی جانب سے قلات کے علاقے منگوچر میں پولنگ اسٹیشنز پر دستی بموں سے حملہ کرکے انتخابات کے عمل کو نقصان پہنچانے کا دعوی ٰکیا گیا۔ تاہم دھمکیوں اور حملوں کے ان دعوئوں کے باوجود صوبے میں بلدیاتی انتخابات کا عمل متاثر نہیں ہو سکا۔

گوادر میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ ‘فروری میں پنجگور ونوشکی میں عسکری تنصیبات اور اپریل میں جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ پرہونے والے حملوں کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند گروہ صوبے بھر میں بالخصوص مکران ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کے عمل کوسبوتاژ کرنے کے لیے بھرپورحملے کریں گے۔” ان کے بقول ”ماضی کے عام انتخابات میں مکران ڈویژن میں انتخابی عمل کا حصہ بننے والی سیاسی جماعتوں، بالخصوص عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کو نشانہ بنایاجاتا رہا ہے مگر ان بلدیاتی انتخابات میں حملوں کی وہ شدت دیکھنے میں نہیں آئی۔”

الیکشن کمیشن کی جانب سے مکمل اور حتمی نتائج کے اعلان میں ایک یا دو دن لگ سکتے ہیں۔ البتہ غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج کی بنیاد پر کارکردگی کے اعتبار سے سیاسی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام(ف) 400 سے زائد نشستیں جیت کر سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ جے یو آئی (ف)واحد جماعت ہے جس نے صوبے کے بلوچ اور پختون دونوں علاقوں سے نشستیں جیتی ہیں۔ غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق صوبے کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی 300 سے زائد نشستیں جیت کر دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ اس کے علاوہ سال 2018 کے عام انتخابات میں بدترین شکست کھانے والی قوم پرست جماعتیں عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی بالترتیب صوبے کے بلوچ اور پختون اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں بہترین کارکردگی دکھا کر صوبے کی سیاست میں دوبارہ داخل ہوئی ہیں۔

غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی دونوں 140سے زائد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے بھی بلوچستان سے 130 سے زائد نشستیں جیتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سابق وزیراعلیٰ اور چیف آف جھالاوان سردار ثنا اللہ زہری اورسابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کے خاندان کی حال ہی میں پی پی پی میں شمولیت کی وجہ سے وہ ضلع خضدار کی تحصیل زہری اور ضلع جعفرآباد سے نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی 100 سے زائد نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے جس کی ایک اہم وجہ ان کی جماعت کا متعدد اضلاع میں جے یو آئی(ف) سے انتخابی اتحاد بھی ہے۔
البتہ سابق حکمران جماعت تحریک انصاف صرف 71 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔اس کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)ِ، عوامی نیشنل پارٹی اورجمہوری وطن پارٹی بالترتیب 68، 43 اور 18 نشستیں حاصل کرسکی ہیں۔

بلوچستان کے اہم ساحلی شہر گوادر میں احتجاج و دھرنے کی وجہ سے شہرت پانے والے جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں قائم ہونے والی ‘حق دو تحریک’ نے آزاد حیثیت میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور میدان مار لیا۔ نیشنل پارٹی، بی این پی اور جے یوآئی (ف) سمیت چار جماعتوں پر مشتمل ایک انتخابی اتحاد ‘حق دو تحریک’ کے مقابلے میں تشکیل دیا گیا تھا مگر وہ اس تحریک کا مقابلہ نہیں کرسکا۔

Related Articles

Back to top button