وفاق کے لیے پنجاب میں گورنرراج لگانا ممکن کیوں نہیں؟

وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ خان کی جانب سے پنجاب میں گورنر راج لگانے کی دھمکی کے باوجود آئینی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے لیے ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بغیر گورنر راج نہیں لگایا جا سکتا ورنہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں سندھ میں گورنر راج نافذ کر دیا ہوتا۔

یاد رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب میں میرے داخلے پر پابندی لگائی تو یہ گورنر راج کے نفاذ کا جواز ہو گا اور میں نے اس دھمکی کے بعد گورنر راج لگانے کے لیے سمری پر کام شروع کر دیا ہے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد فواد چوہدری کی جانب سے میرے پنجاب میں داخلے پر پابندی لگانے کی دھمکی دی جا رہی ہے، لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر انہوں نے کوئی ایسی حرکت کی تو یاد رکھیں کہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کی سمری میری وزارت داخلہ نے پیش کرنی ہے۔

تاہم آئینی اور قانونی ماہرین نے رانا ثناء اللہ کی دھمکی کو ایک گیدڑ بھبکی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کام اب اتنا آسان نہیں رہا۔ انکا کہنا ہے کہ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج لگانے کا طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔ گورنر راج یا صوبے میں ایمر جنسی نافذ کرنے سے متعلق آئین کے آرٹیکل 232 سے 235 تک وضاحت کی گئی ہے۔ بنیادی طور پر گورنر راج کا مقصد وقتی طور پر صوبے کا نظام وفاق کے سپرد کرنا ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ کے اختیارات گورنر کو منتقل کر دیے جاتے ہیں، تاہم آصف زرداری کے دور حکومت میں آئین میں کی جانے والی اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر راج کو متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا تھا۔ آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی جنگ یا کسی اندرونی اور بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور اس کا سامنا صوبائی حکومت نہ کر سکتی ہو تو صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کر کے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔ تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ متعلقہ اسمبلی سادہ اکثریت سے ایک قرارداد کے ذریعے گورنر راج لگانے کی منظوری دے۔ اگر اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر گورنر راج لگانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔

آئینی ماہرین بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کی قرارداد صدر کو بھیجی جاتی ہے۔ اگر صدر خود ہنگامی حالت نافذ کرتا ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے اپنا فیصلہ توثیق کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ اس کے علاوہ وفاق کو بھی کسی صوبے میں امن و امان کی صورت حال یا صوبائی حکومت چلانے میں ناکامی کو جواز بنا کر گورنر راج لگانے کا اختیار حاصل ہے لیکن اس کے لیے اسے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے منظوری یا قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری حاصل کرنا ہو گی ہے۔

سابق اٹارنی جنرل انور منصور علی خان کے مطابق کسی بھی صوبے میں گورنر راج تب تک نافذ نہیں ہو سکتا جب تک اسکا وزیراعلٰی نہ کہے کہ صوبے کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ حکومت نہیں کی جا سکتی، اور اگر صوبے کا وزیراعلٰی وزیراعظم سے گورنر راج لگانے کا نہ کہے تو وفاق صوبے میں گورنر راج نافذ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی کی اپنی اسمبلی سے بھی اس کی منظوری لینا ضروری ہے۔سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر راج لگانے کے لیے آئین میں واضح ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی اسمبلی اور وزیراعلٰی کی مرضی کے بغیر گورنر راج نافذ نہیں کر سکتی۔

یوم تکبیر کی وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن بحال ہوا

آئینی اور قانون ماہر حامد خان سمجھتے ہیں کہ وفاق کے پاس کسی صوبے میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار موجود ہے لیکن اس کے لیے ٹھوس وجوہات ہونا بھی ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر وفاق پنجاب میں گورنر راج لگاتا ہے تو یہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ہی ہوگا۔ دوسری صورت معاشی ایمرجنسی کو جواز بنانا ہے لیکن معاشی ایمرجنسی کسی ایک صوبے میں لگ نہیں سکتی اس کے لیے پورے ملک میں معاشی ایمرجنسی ڈکلیئر کرنا ہوگی۔ حامد خان کے بقول اسوقت وفاقی حکومت کے پاس کوئی ایسا جواز نہیں کہ گورنر راج نافذ کیا جائے۔

قانونی ماہر اور جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس معاملے پر بتایا کہ گورنر راج لگانے کے لیے وفاق کے پاس اختیار تو موجود ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر راج کے نفاذ کے لیے صدر مملکت بڑا کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس وقت عارف علوی چونکہ عمران کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لہذا وہ پنجاب میں گورنر راج نہیں لگنے دیں گے۔ اس لیے میرا وفاقی حکومت کو مشورہ ہے کہ اس پر سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیے۔ اس معاملے پر سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انتظامی فیصلوں کی بجائے صرف سیاسی فیصلے ہی سیاست بچانے کا واحد حل ہیں۔

لیکن معروف وکیل رہنما خوش دل خان کہتے ہیں کہ پنجاب میں کئی ماہ سے اسمبلی کی کارروائی میں عدالتی مداخلت جاری ہے اور اب سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر رولنگ کیس میں جو فیصلہ دیا اس سے حالات ٹھیک ہونے کی بجائے اور خراب ہوں گے کیونکہ یہ فیصلہ آئین و قانون کے خلاف ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جب تین رکنی بینچ پر ایک فریق نے اعتراض کر دیا تو فل کورٹ بنانے کا جواز پیدا ہوگیا تھا اور چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی ضد اور انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فل کوٹ بنا دیتے تاکہ ان کا فیصلہ متنازعہ نہ ہوتا۔ خوش دل خان نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ پرویز الٰہی کو غیر آئینی وزیر اعلیٰ قرار دے کر گورنر راج لگا دے کیونکہ سپریم کورٹ پریذائیڈنگ آفیسر کا کردار ادا کرتے ہوئے ووٹوں کی گنتی کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔

لیکن سیئیر قانون دان حامد خان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت صوبے میں گونر راج لگا تو سکتی ہے لیکن ایسا کرنا مشکل ہوگا کیونکہ اس کا مطلب سیدھا سیدھا سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنا ہو گا لہٰذا س ایکشن کو سپریم کورٹ فوری طور پر کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔

Related Articles

Back to top button