کیا پاکستانی جنگجوؤں کے اہلخانہ کو واپس لاکر بسانا ممکن ہے؟

ماضی میں جنگ لڑنے کی خاطر افغانستان چلے جانے والے ہزاروں پاکستانی جنگجوؤں کو ملک واپس آنے کی اجازت ملنے کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں یہ لوگ دوبارہ سے بدامنی پھیلانا تو شروع نہیں کر دیں گے؟

واضح رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سابق فاٹا اور وادی سوات میں فوجی آپریشن کے باعث نقل مکانی کر جانے والوں کے علاوہ افغانستان میں طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے والے ہزاروں شدت پسندوں اور ان کے خاندانوں کو واپس پاکستان لا کر بسانے کا عمل شروع ہوگیا ہے جس پر دفاعی ماہرین اور مقامی افراد تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا تحریک طالبان سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد کیا یہ حربہ کارگر ثابت ہوگا اور کیا اس طرح طالبان کی نئی نسل دہشت گردی سے باز آجائے گی۔

یہ نکتہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس طرح سابق فاٹا اور سوات جیسے علاقوں میں دوبارہ شدت پسندی تو جنم نہیں لے گی؟ تاہم ان سب سوالوں کے جواب نہ تو پارلیمنٹ کے فورم پر دیئے جا رہے ہیں اور نہ ہی وزیر داخلہ اس حوالے سے کسی پالیسی کا علم رکھتے ہیں یعنی اس معاملے میں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی آل ان آل ہے۔

سیکورٹی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ تقریباً 44 ہزار ایسے لوگ افغانستان سے واپس پاکستان آ کر آباد ہونے کے پراسس میں ہیں جن کا تعلق ماضی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ اُن شدت پسند تنظیموں سے رہا ہے جنھیں پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی اور پاکستانی سکیورٹی فورسز سے لڑائی کی وجہ سے ملک سے فرار ہوئے اور افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

وطن واپس لوٹنے والوں میں سے زیادہ تر افراد اور خاندانوں کا تعلق سوات سے ہے جبکہ شمالی وزیرستان کے مداخیل قبیلے کے بھی کافی لوگ ان میں شامل ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ افغانستان میں اس وقت جو خاندان آباد ہیں اُن سے کہا گیا ہے کہ وہ سفارتخانے سے رابطے کریں اور قانونی طور پر ملک واپس آئیں۔

تاہم شیخ رشید کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا کہ ایسے افراد کی وطن واپسی کے حوالے سے کیا پالیسی ہے جو ماضی میں شدت پسند کارروائیوں میں ملوث رہے ہوں۔ دوسری جانب ایک سینئیر سیکیورٹی عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان واپس آنے والے شدت پسندوں کے خاندانوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے ہے اور اب تک طالبان کے 42 خاندانوں کو پاکستان میں معمول کی زندگی گزارنے کے لیے سہولت کاری کی جا چکی ہے۔ ان میں کئی ایسے شدت پسندوں کے خاندان بھی شامل ہیں جو حکومت کو مطلوب رہے ہیں اور فوجی کارروائیوں یا ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔

کیا افغان طالبان کو TTP پاکستان سے زیادہ عزیز ہے؟

اس صورتحال میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ حکومت اور ٹی ٹی پی مذاکرات کی ناکامی اور اس کے بعد شدت پسندی کی بڑھتی ہوئی دہشت گرد کارروائیوں کے پیش نظر ایسے خاندانوں کو واپس لانے کا فیصلہ کس سرکاری پالیسی کا حصہ ہے؟ اس سوال پر ایک سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ تحریک طالبان سے ناکام مذاکرات کے بعد اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان خاندانوں کے بچوں کو ریاست مخالف پر تشدد کارروائیوں کا حصہ بننے سے روکا جائے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس پالیسی کے تحت طالبان سے منسلک خاندانوں کو دوبارہ پاکستان میں آباد کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سروے رپورٹ بھی تیار کی گئی ہے جسکے اعداد و شمار کے مطابق ان افراد کی تعداد 40 سے 44 ہزار تک ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے پاکستان حکومت اور فوج انسداد دہشت گردی کی پالییس کے تحت ٹی ٹی پی کے نچلی سطح کے دہشت گردوں کے لیے ایسے مراکز کا اہتمام بھی کر چکی ہے جہاں انھیں معمول کی زندگی کی جانب لوٹنے میں مدد دی جاتی تھی۔

اس پالیسی کے تحت صرف ایسے دہشت گردوں کی مدد کی گئی تھی جو براہ راست عوام یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث نہیں پائے گئے تھے۔ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق ایسے خاندان جو واپس آنا چاہتے ہیں ان میں ایک سال کے بچے سے لے کر 75 سال تک کے عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں جن میں سوات سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہ تقریبا 2200 خاندان ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے سوات میں شدت پسندی میں ملوث افراد سے رہا ہے۔ تاہم سوات سے تعلق رکھنے والے ان افراد میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو آج تک کسی دہشت گردی میں ملوث نہیں رہے۔ ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو سنہ 2001 میں دیر، سوات اور مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کے ساتھ افغانستان چلے گئے اور واپس نہیں آ سکے۔

سیکیورٹی حکام کے مطابق یہ افراد بلاشبہ تاحال کسی دہشت گرد تنظیم میں شامل تو نہیں ہوئے لیکن کئی دہشت گرد تنظمیوں کے ارکان سے سماجی طور پر رابطے اور رشتہ داری میں منسلک ضرور ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کی مدد نہیں کی گئی تو نئی نسل بھی دہشتگردی کی طرف مائل ہو سکتی یے۔

Related Articles

Back to top button