خود اغوا ہونے والے رانا ثنا اللہ کا لاپتہ افراد پر یوٹرن

ماضی میں خود ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے کے بعد چھانگا مانگا کے جنگل سے بھنووں اور بالوں کے بغیر برآمد ہونے والے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان نے اب یہ مضحکہ خیز دعویٰ کر دیا ہے کہ حکومت سے زیادہ فوج کی قیادت جبری گمشدگیوں کے خلاف ہے، مگر وہ مجبور ہے۔

یاد رہے کہ مشرف دور میں بطور ایم پی اے پنجاب اسمبلی میں ایک مشرف مخالف تقریر کی پاداش میں رانا ثناءاللہ خان کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کی بھنویں اور مونچھیں منڈوا کر اور ٹنڈ کرنے کے بعد انہیں چھانگا مانگا کے جنگلوں میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ لیکن یہ سب کچھ بھلاتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے اب یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت سے زیادہ ہماری فوجی قیادت جبری گمشدگیوں کے خلاف ہے مگر وہ مجبور ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسی کیا مجبوری ہے جو لوگوں کو اغوا کرنا پڑتا ہے تو وزیرداخلہ نے کہا کہ سب باتیں پبلک نہیں کی جا سکتیں، اس سے لاپتہ افراد کے لواحقین کی دل آزاری ہوگی۔ آج ٹی وی کے پروگرام ”سپاٹ لائٹ” میں لاپتہ افراد کے معاملے پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں، جتنا اس کو سمجھا جاتا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی حالیہ میٹنگ میں بھی اس معاملے پر بڑی کھل کر بات چیت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حساس معاملہ ہے اور میٹنگ میں ہونے والی باتوں کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ عسکری قیادت ان گمشدگیوں کیخلاف ہے اور ہم سے زیادہ انہوں نے ایسے واقعات کی مذمت کی۔

جنرل باجوہ کی امیر قطرسے ملاقات، باہمی دلچسپی کےامور پربات چیت

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت نے کہا کہ جبری گمشدگیاں نہیں ہونی چاہیں۔ اس پر پروگرام کی میزبان نے پوچھا کہ آخر ان کو کیا مجبوری ہے۔اس کا جواب دیتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ان مجبوریوں کو پبلک میں ڈسکس نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ ہے کہ ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اگر کوئی شخص اب دنیا میں نہیں رہا تو اس کے بارے میں ان کے اہلخانہ کو سب سچ سچ بتا دیا جائے تاکہ وہ صبر شکر کر لیں۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں اور اسے صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی حل کر سکتی ہے کیونکہ تمام فریقین کو مل بیٹھنا پڑے گا۔

دوسری جانب حکومتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ گمشدہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کیلئے کائی قانونی طریقہ کار اپنانے کو سوچا جا رہا ہے اور اس معاملے پر حکومت سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سے بات چیت کر رہی ہے جس پر لوگوں کے اغوا کا الزام عائد ہوتا ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گمشدہ افراد کا پیچیدہ اور حساس معاملہ سویلین حکومت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ بحث و مباحثہ اس بات پر ہو رہا ہے کہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس سے دہشت گردی کے خطرناک ملزمان اور ریاست مخالف عناصر کو کام کرنے کا موقع مل سکے اور نہ ایجنسیاں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے کسی بے گناہ شخص کو پکڑیں۔ اس طرح کے مباحثے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بھی ہوئے ہیں جس میں سول ملٹری قیادت اور سیکورٹی ایجنسیوں کے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔

 سول حکومت اور سیکورٹی اسٹیبشلمنٹ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی قانونی حل سامنے لایا جائے جس میں سیکورٹی کا پہلو بھی متاثر نہ ہو لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی شخص لاپتہ نہ ہو۔ تاہم، مسئلے کا حل کیا ہوگا یہ معلوم نہیں۔ مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے جس میں ایجنسیوں کو اس بات کا پابند بنانا شامل ہے کہ وہ 48؍ گھنٹوں کے اندر ملزم کو عدالت میں پیش کر دیں اور اس پر پارلیمنٹ کی نگرانی ہونا چاہئے جو کسی بھی شخص کو حراست میں لیے جانے کی وجوہات اور جواز کی نگرانی کرے گی۔ اس بات کا اعتراف کیا جا تا ہے کہ غلط انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر یا ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے بے گناہ افراد کو اٹھا لیا جاتا ہے لیکن جن لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے ان کی اکثریت معاشرے کیلئے خطرناک ہوتی ہے اور اگر ان کو چھوڑ دیا جائے تو دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ یہ واضح نہیں لوگوں کی گمشدگی کے واقعات کو ختم کرنے کیلئے کیا قانونی حل ضروری ہے۔ کیا ایجنسیوں کو گرفتاری کے اختیارات مل جائیں گے؟ ایجنسیوں کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریوں کی نگرانی پارلیمنٹ کیسے کرے گی؟ یہ مشکل سوالات ہیں۔ ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات ہیں جن پر مختلف اسٹیک ہولڈرز کی رائے مختلف ہے۔ وزیر نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث خطرناک ملزمان کو عام ملزمان کی طرح نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیکورٹی ایجنسیاں ان پر نظر رکھتی ہیں، ان سے متعلقہ معلومات حاصل کرتی ہیں لیکن اپنی حراست میں نہیں لیتیں۔ خدشہ ہے کہ اگر ایجنسیوں کو گرفتاری کے اختیارات دیدیے گئے تو سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس کے کارکن رد عمل دکھائیں گے اور اگر خطرناک ملزمان کو چھوڑ دیا گیا تو دہشت گردی اور تخریب کاری بڑھے گی۔ یہ صعرتحال حکومت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کیلئے پریشان کن ہے۔

یاد رہے کہ عدالتوں اور سول سوسائٹی کے دباؤ میں آ کر پی ٹی آئی حکومت نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کیلئے قومی اسمبلی میں ایک بل منظور کیا تھا جس میں جبری گمشدگی میں ملوث شخص کو 10 سال قید کی سزا دینے کی تجویز دی گئی تھی۔ لیکن حتمی منظوری کے لیے سینٹ میں بھجوائے جانے کے بعد سے یہ بل بھی لاپتہ اور گمشدہ ہو چکا ہے اور اس پر قانون سازی نہیں ہو سکی۔

Related Articles

Back to top button