سیاست دان عوام کی بجائے گیٹ نمبر4 پربھروسہ کیوں کرتے ہیں؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ جب سے سیاستدانوں نے حکمرانی حاصل کرنے کی خاطر عوام کی بجائے گیٹ نمبر چار کا استعمال شروع کیا ہے، نئے آرمی چیف کی تعیناتی ملکی سیاست میں مرکزی اہمیت حاصل کر چکی ہے۔ اسی لیے نومبر میں ہونے والی آرمی چیف کی تعیناتی نے پورے ملک کا نظام گرفت میں لے رکھا ہے۔
کسی بھی سیاست دان کو اپنی عوامی طاقت پر بھروسا نہیں، سب چاہتے ہیں کہ ہر جگہ اپنا بندہ ہو تا کہ وہ ان کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت کر سکیں۔ اگر نواز لیگ کے لوگوں سے پوچھیں کہ عمران خان کو ہٹانے کی انہیں کیا ضرورت پڑی تھی جب اس کا صرف ایک سال باقی تھا تو عجیب جواب ملتا ہے۔ فروری 2022 میں حالات ایسے ہو چکے تھے کہ عمران کے وزیر ٹی وی شوز میں جانے کو تیار نہیں تھے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان ایکشن ری پلے کردے گا؟
میں خود گواہ ہوں کہ وزیر گھبراتے تھے کہ ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں۔ مجھے یاد ہے دو تین وزیروں سے بات ہوئی تو کہنے لگے جی ہم کیوں جائیں ان بڑے لوگوں کا دفاع کرنے ٹی وی چینلز پر جو کہ مال بنا رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وہ خان کے دوست ہیں اور وزیر بنے بیٹھے ہیں۔ وہ خود کو ٹیکنو کریٹ کہہ کر فیصلے کرتے ہیں اور اپنا ایک پاؤ گوشت تک الگ کر لیتے ہیں جبکہ ہمیں کہا جاتا ہے اب جائیں اور ان کا دفاع کریں۔
رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا فیصلہ تب کیا گیا جب اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آصف زرداری اور نواز شریف کو بتایا گیا کہ جناب آگے نومبر آ رہا ہے۔ باقی کی کہانی آپ سن ہی چکے ہوں گے کہ کیسے انہیں ڈرایا گیا تھا کہ نومبر میں عمران اپنی پسند کا آرمی چیف لگا کر نواز لیگ کے سب سرکردہ لوگوں کو جیل میں ڈال دے گا۔ ٹاپ لیڈرشپ کو نا اہل کر کے اگلے سال کا الیکشن آرام سے جیت کر وہ اگلے پانچ برس بھی حکومت کرے گا۔ یہ بات ویسے اب پی ٹی آئی کے وزیر بھی ٹی وی چینلز پر کہنا شروع ہو گئے تھے کہ ہم یہاں 2028ء تک حکومت کرنے آئے ہیں ۔اگر عمران بھی نومبر کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ پاکستان کے پوٹن بنیں گے تو انکے مخالفین بھی یہ بات نہ سمجھ سکے کہ شاید وہ جلدی نہ کرتے تو خان صاحب کی حکومت جس طرح چل رہی تھی وہ نومبر تک اتنے غیر مقبول ہو چکے ہوتے کہ اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ وہ دس سال توکیااگلے الیکشن تک پہنچ پاتے۔
کلاسرا کہتے ہیں کہ عمران کو اقتدار سے نکالنے کا فیصلہ نئی حکومت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا اور صرف چھ ماہ پہلے تک پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت مانی جانے والی نواز لیگ تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہر الیکشن ہار رہی ہے۔ اس وقت عمران خان اور شہباز شریف کے مابین اپنی پسند کا آرمی چیف لگانے کے لیے میچ پڑا ہوا ہے۔ لیکن دونوں شاید یہ تاریخی سبق بھول گئے کہ جو بھی وزیراعظم اپنی پسند کا جونئیر آرمی چیف لگاتا ہے وہ بالآخر اس کے ہاتھوں مار کھا جاتا ہے۔ دو طاقتور وزیر اعظم بھٹو اور نواز شریف اپنا انجام دیکھ چکے جنہوں نے جونئیر جرنیلوں یعنی ضیا اور مشرف کو چیف لگایا تھا۔
رؤف کلاسرا کے بقول آرمی چیف لگانے کے چکر میں خود کو غیر مقبول کرنے کی بجائے پی ڈی ایم اتحاد کو انتظار کرنا چاہیے تھا اور عمران کو موقع دینا چاہیے تھا کہ وہ اپنی مرضی کا چیف لگا لیتا۔دراصل نواز شریف نے اپنی مرضی کا چیف لگایا تو وہ عمران کے کام آیا۔ کیا پتہ کہ عمران کا لگایا ہوا چیف نواز شریف اور زرداری کے کام آتا۔ ہم انسان عجیب مخلوق ہیں، ہمیں خود اپنا پتہ نہیں ہوتا کہ کس لمحے ہم کیا کر گزریں جبکہ دوسرے ہمیں اپنا بندہ سمجھ کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہوتے ہیں، جیسے عمران اور ان کے وزیر نومبر کی تقرری ذہن میں رکھ کر 2028ء تک حکومت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ان حالات میں نواز لیگ اور زرداری کا صرف نومبر کی تعیناتی سے بچنے کے لیے اتنابڑا بحران پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ مان لیا سب کچھ جمہوری انداز میں کیا گیا اور ہاؤس کے اندر سے تبدیلی لائی گئی، لیکن کیا کریں کہ پاکستان میں وہ جمہوریت نہیں جو برطانیہ میں ہے جہاں تین چار ماہ میں تین وزیراعظم بدل گئے ہیں لیکن وہاں کوئی آسمان نہیں ٹوٹا، نہ وہاں لانگ مارچ ہوئے، نہ دھرنے نہ بندے مرے اور نہ ہی کسی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔