آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد عوام کو کیا ریلیف ملے گا؟

شہباز حکومت کی جانب سے عمران دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی روشنی میں تمام تر عوام دشمن شرائط تسلیم کئے جانے کے بعد اب پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے مابین قرض پروگرام کی بحالی کا سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے بعد پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالرز قرض کی فراہمی کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مہنگائی کے مارے عوام کو حکومت کیا ریلیف فراہم کرتی ہے؟
یاد رہے کہ شہباز حکومت آئی ایم ایف سے 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے اقتدار میں آنے کے بعد سے کوشاں تھی۔ اس سلسلے میں حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پٹرولیم مصنوعات پر عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ کیا، بجلی کے نرخ بڑھائے، اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے اور انڈسٹری پر ٹیکس کی شرح بڑھائی اور کچھ دیگر شرائط پر بھی عمل کیا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اس موجودہ پروگرام کے تحت چھ ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالر پاکستان کو مل چکے ہیں جبکہ اب مزید رقم ملنے کے بعد قرض کی مد میں فراہم کی جانے والی رقم چار اعشاریہ دو ارب ڈالرز ہو جائے گی۔ لیکن بتایا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد کل رقم کو چھ ارب ڈالر سے بڑھا کر سات ارب ڈالر کیا جا سکتا ہے۔
استعفے کے مطالبے پر الیکشن کمشنر نے عمران کو ٹھینگا دکھا دیا
آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہونے کے بعد جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کو طلب و رسد پر مبنی ایکسچینج ریٹ کا تسلسل برقرار رکھنا ہو گا، اس کے ساتھ مستعد مانیٹری پالیسی اورسرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’عالمی مہنگائی کے باعث بڑھتی قیمتوں اور اہم فیصلوں میں تاخیر سے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے، زائد طلب کے سبب معیشت اتنی تیز تر ہوئی کہ بیرونی ادائیگیوں میں بڑا خسارہ ہوا۔‘
یاد رہے کہ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے میں ملک کے ماہرین معیشت اور ان پروگراموں کے دوران حکومتوں میں رہنے والے افراد نے پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف پروگراموں کے اثرات کے متعلق مختلف رد عمل دیا ہے۔ کچھ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کے مالی نظم و ضبط کے لیے تھے تو دوسروں نے ان پروگراموں سے ملک پر قرض کے بوجھ میں اضافے اور غربت میں اضافے کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔
پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے عالمی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 22 پروگرام ہوئے اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے پایا۔ اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور آخری اور موجودہ پروگرام کے معاہدے پر جولائی 2019 میں دستخط ہوئے جس کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر ملنے تھے جس میں سے تین ارب ڈالر مل چکے ہیں اور باقی تین ارب ڈالر کے لیے موجودہ حکومت کے عالمی ادارے سے مذاکرات جاری ہیں۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لے کر ملک چلانے کی پالیسی کا بوجھ مسلسل پاکستانی عوام ہی برداشت کریں گے۔ ویسے بھی آئی ایم ایف امریکہ کے زیر اثر ادارہ ہے اس لیے اس کا معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی ایجنڈا بھی ہوتا ہے اور وہ پاکستان میں آئی ایم ایف پروگراموں سے ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد بھی عوام کو ریلیف ملنا ممکن نظر نہیں آتا۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ پاکستان کے سابق مشیر خزانہ اور ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ڈاکٹر سلمان شاہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت تب پیش آئی جب پاکستان کو بیلنس آف پیمنٹ یعنی ادائیگیوں میں عدم توازن کے بحران کا سامنا ہوا۔ انھوں نے کہا جب بھی ملکی درآمدات زیادہ ہوئیں جو اس وقت بھی ہو رہی ہیں اس وقت ملک کو بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور اس کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ انھوں نے کہا اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس بار بار گیا تو اس پر آئی ایم ایف کو الزام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بحران کا سامنا ہمیں تھا اور اس پر ہمیں ان کے پاس جانا پڑا۔
ڈاکٹر سلمان شاہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہم میکرو لیول پر تو اصلاحات کر لیتے ہیں لیکن مائیکرو لیول پر یہ اصلاحات نہیں ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف نے اصلاحات کا کہا تو ہمیں کرنی چاہیے تھیں جن میں معیشت کو ایکسپورٹ والی معیشت کے ساتھ صنعتی شعبے کو زیادہ ترقی، زراعت میں ترقی اور ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کرنا تھا جو ہم نے نہیں کیں۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے اخراجات زیادہ ہیں اور اس لحاظ سے آمدن نہیں ہے۔ پاکستان کے غیر ترقیاتی اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ بھی بڑھتا ہے اور اسکے ساتھ تجارتی خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے جس سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔