فوجی کمانڈ کے ساتھ، نظام حکمرانی میں تبدیلی

تحریر :امتیاز عالم

بشکریہ:روزنامہ جنگ

بروز ہفتہ، دم تحریر بس ایک ہی دعا ہے کہ عمران خان کا راولپنڈی کا جلسہ بخیر و عافیت اختتام پذیر ہو، وزیر آباد کا حادثہ بدتر صورت رونما نہ ہو۔ باوجود یکہ، امریکی سازش کی طفلانہ کہانی اور رجیم چینج میں شامل نام نہاد سہولت کار قصۂ پارینہ ہوئے اور ایک صفحے کے سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوچکا۔ گو کہ لانگ مارچ کی سانس پھول چکی اور نہ ہی اب راولپنڈی سے انتخابات کی تاریخ کا مراسلہ ملنے کی امید باقی بچی ہے، خان مگر دم ہارنے والا نہیں۔ اس سے پہلے کہ کپتان ہفتہ کے روز کوئی نیا حیران کن دھماکہ کرتا، دو روز قبل ہی قومی اتفاق رائے سے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتیوں کا عمل بخیر و خوبی انجام پاچکا ہے۔ اب گیند سیاستدانوں کے میدان میں ہے، وہ اسے واپس جی ایچ کیو کے کورٹ میں پھینک کر پھر سے اپنی انگلیاں کیوں کٹوائیں گے؟ ریٹائر ہوتے وقت جنرل قمر جاوید باجوہ ستر برس تک فوج کی سیاست میں آئین کُش مداخلت کے ہاتھوں رسوائی پہ معافی مانگ چکے اور فوج کے بطور ادارہ سیاست سے کنارہ کشی کا عہد دہرا چکے، اب نظریں نئی فوجی قیادت کی جانب لگی ہیں کہ وہ کس حد تک فوج کی سیاست سے دست کشی کے عہد پرعمل پیرا ہوتی ہے اور افواج پاکستان اور اس کی ایجنسیاں آئینی اعتبار سے کتنی قلب ماہیئت کرتی ہیں۔ لیکن تشکیک پسند ہیں کہ کہے جارہے ہیں کہ :چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی (ذوق)۔ ایک عرصے بعد سینئر ترین تھری اسٹار جنرل اور وہ بھی فوجی معیار پہ پورا اترنے والے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے بعد یہ اُمید کی جارہی ہے کہ وہ اپنے ادارے کے بارے میں پھیلی وسیع سیاسی بدگمانیوں کو دور ہی نہیں کریں گے، بلکہ اپنے پیش روئوں کی روایات سے ہٹ کر بطور ادارہ فوج کو تمام سویلین معاملات سے علیحدہ کرتے ہوئے اس کی آئین و قانون کی منشا کے مطابق اداراتی اصلاح کرتے ہوئے قائداعظم کے فرمان پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے منتخب اداروں کی طے کردہ پالیسیوں پہ نہ صرف سلامتی و خارجی بلکہ دیگر غیر عسکری شعبہ جات میں عملداری قائم کریں گے۔ گو کہ یہ توقع باندھنا عین آئینی اور قومی منشا کے مطابق ہے، لیکن 75برس سے جاری بعداز نوآبادیاتی نوکر شاہانہ قومی سلامتی کی ریاست کے آہنی ڈھانچے کی جڑیں اتنی گہری ہیں اور اس کے تانے بانے اتنے وسیع تر ہیں کہ اس کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بہر کیف، ابتدا تو کی جاسکتی ہے اور ایک جامع و مستحسن ابتداء بالآخر ایک پائیدار جمہوریہ کی جانب سفر کو آسان بناسکتی ہے، بشرطیکہ سیاستدان موقع پر ستانہ اور بے اصول سیاست کی سر پھٹول میں پھنسے رہنے کی بجائے افہام و تفہیم، جمہوری رواداری اور باہمی افہام و تفہیم کی پارلیمانی روایات پر عمل کرنا شروع کریں۔

اب اس کا کیا کیجئے کہ عمران خان چوٹی پہ چڑھ کر بیٹھ گئے ہیں اور آئے روز چھلانگ مارنے کی دھمکیاں دینے سے باز نہیں آرہے اور حکومت ہے کہ لاینحل معاشی و اداراتی بحران کے منجدھار میں پھنسی بے بسی سے ہاتھ پائوں مارنے پر مصر ہے۔ عمران خان نے جو مقبولیت کی اونچ پانی تھی پاچکے، وہ نیچے آئے گی بھی تو ان کی اپنی بے مقصد اچھل کود سے۔ وہ سیاسی عدم استحکام کی دہائی تو دے رہے ہیں، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ وہ خود اس سیاسی عدم استحکام کے سب سے بڑے محرک ہیں۔ انہیں جیسے سیاسی طور پر پالا پوساگیا، ان کے مخالفوں کو کیسے کیسے ناکام و رسوا کیا گیا اور ایک صفحہ کی برکت سے فیضیاب کیا گیا، وہ بھی قصۂ پارینہ ہوا۔ اب وہ اپنے تئیں خود ایک پاپولر لیڈر بن چکے ہیں اور انہیں اب کسی کی بیساکھیوں کی ضرورت بھی نہیں رہی تو وہ کیوں باربار پلٹ کر پھر سے مقتدرہ کا بغل بچہ بننے کی آرزو میں مبتلا ہیں؟ان کی آخری پناہ گاہ پارلیمنٹ ہے اور اسی پارلیمنٹ کو وہ آج تکریم بخشیں گے تو وہ کل ان کی ممکنہ منتخب حکومت کی مضبوط اساس بنے گی۔ دوسری جانب اتحادیوں کی وسیع تر حکومت کو یہ جان لینا چاہئے کہ جاری معاشی و سیاسی بحران کو وہ تن تنہا سنبھال نہیں پارہی۔ اس کے سو جتن کے باوجود معاشی ابتری جلد ختم ہونے والی نہیں۔ معاشی بحران اتنا گمبھیر ہے کہ اس کا بھار اگلی حکومتوں کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اس دوران اگر ہم کچھ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس پہ کوئی پیسہ خرچ کئے بغیر بھی خود پیدا کردہ بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔

فوری و درمیانی مدت کے جو اقدامات ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ :ریاست کم از کم اپنے خرچے آدھے کردے، تمام ادارے اپنی مراعات ایک تہائی کردیں، کسی بھی غیر پیداواری خرچے کے لئے قطعی طور پر کوئی قرض حاصل نہ کیا جائے، تمام آمدنی پہ واجب الادا ٹیکس دیا جائے۔ تمام ٹیکس استثناعات ختم کردی جائیں۔ کم آمدنی والوں کے لئے امدادی رقوم کو سختی سے مخصوص کردیا جائے۔ ہر طرح کی اجارہ داری، سٹے بازی اور مافیاز کا قلع قمع کردیا جائے۔ خواص کا غلبہ ختم کرتے ہوئے، عوام کو ترقی اور اس کے ثمرات میں حصہ دار بنایا جائے۔ جاگیرداری اور کرپٹ کرایہ داری کے نظام کو تہس نہس کردیا جائے۔ دست نگرمعیشت کی جگہ معاشی و مادی اور سائنسی پیداواری قوتوں کو فروغ دیا جائے اور عوامی ترقی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے عوام کو سماجی خدمات، تعلیم و صحت، ہنر مندی اور ترقی کے مواقع فراہم کئے جائیں۔سی پیک کو اپنی ضرورتوں کے مطابق آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لئے ایک جاذب نظر مارکیٹ بنایا جائے۔ آئین کے مطابق تمام ریاستی اداروں کے دائرہ عمل کا سختی سے تعین کیا جائے۔ سول ملٹری تعلقات کے تاریخی مسئلے کو آئین کی منشا کے مطابق پھر سے استوار کرتے ہوئے جمہوری بالا دستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری سے وابستہ کیا جائے۔ نیز ریاست کے بھاری بالائی ڈھانچے کو محدود معاشی استعداد کے بنیادی ڈھانچے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے کٹ ٹو سائز کیا جائے۔ قرضوں کے جال اور دست نگری کے خاتمے کے لئے جامعہ منصوبہ بندی۔ غرض یہ کہ خواص کے پاور اسٹرکچر اور امرا کی سیاسی معیشت میں انقلابی تبدیلی کے بغیر فوجی چین آف کمانڈ میں تبدیلی سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں۔ ٹھیک ہونا ہے تو سب کو ٹھیک ہونا ہے اور ٹھیک کرنا پڑے گا۔ ورنہ وہی ڈھاک کے تین پات!

Related Articles

Back to top button