سوات کے عوام دہشتگردوں کیخلاف سڑکوں پر کیوں نکل آئے؟


پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلانے والے سوات کے عوام بار بار کی حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود طالبان کی واپسی کے باعث بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات کیخلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔ ان مظاہروں کا سلسلہ تب شروع ہوا جب حال سوات کی تحصیل کبل میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ امن کمیٹی سے منسلک ادریس خان 13 برس سے ان کی ہٹ لسٹ پر تھے۔

یاد رہے کہ پچھلے دو ماہ سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ ماضی میں افغانستان میں پناہ لینے والے تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوئوں نے سوات اور دیگر علاقوں میں واپسی شروع کر دی ہے جس کے بعد امن و عامہ کی صورتحال خراب ہو گئی ہے اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ اب سوات کے شہری دہشت گردی میں اضافے کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، پہلے حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ سوات میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹیں قائم کر دی گئی ہیں اور اب امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہو پایا اور خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد اب تو عمران خان کے قریبی ساتھی اور سابق ایم این اے مراد سعید نے بھی دہشت گردی کی وجہ سکیورٹی اداروں کی ناکامی کو قرار دے دیا ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں مراد سعید کا کہنا ہے کہ سوات میں کافی عرصے سے ایسا کچھ نہیں تھا، ان کا کہنا تھا کہ وادی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول پولیس، لیویز، فرنٹیئر کور اور فوج موجود ہے لیکن دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔

سوات میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والے سردار علی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہزاروں لوگ دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں جبکہ حکام نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، انہوں نے کہا کہ بہت ہو گیا، اب ہم مزید ایسی سرگرمیاں برداشت نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس دہشت گردوں اور ریاست دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے تو سوات کے عوام خود ان عناصر کے خلاف کارروائی کریں گے۔

یاد رہے کہ سوات 2007 میں تب عسکریت پسندوں کی زد میں آیا تھا جب کالعدم تحریک طالبان نے ملا فضل اللہ کی قیادت میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا۔2009 میں فیصلہ کن فوجی آپریشن کے نتیجے میں علاقے سے عسکریت پسندی ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی، تاہم اب ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ عسکریت پسند 12 سال بعد دوبارہ سر اُٹھا رہے ہیں اور وہ لوگوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر حکام کے سامنے ان کے خلاف مذمت کریں گے تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

Related Articles

Back to top button