حکومت ایران سے پاکستانی زائرین کی آمد روکنے میں ناکام

پاکستان کی جانب سے ایران سے اپنے شہریوں کی آمد روکنے کے لیے تفتان سرحد پر امیگریشن کا عمل بند کرنے کے باوجود ایران سرحد بند کرنے کے پاکستانی فیصلے پر عملدرآمد میں تعاون نہیں کر رہا جس کے باعث پاکستانی باشندے دونوں ملکوں کے سرحدی دروازوں کے درمیان بفر زون میں پھنس جاتے ہیں اور بالآخر پاکستانی حکام کو انہیں آنے کی اجازت دینا پڑ جاتی ہے۔
یاد رہے کہ 13مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے کرونا کا پھیلاو روکنے کے لیے ملکی سرحدیں بند کرنے کے فیصلے کے باوجود ایران اب تک 600 سے زائد پاکستانیوں کو واپس پاکستان بھیج چکا ہے۔ پاکستان نے کرونا وائرس کا مسئلہ اٹھنے کے بعد 22 فروری سے27 فروری تک ایران کے ساتھ اپنی سرحد غیراعلانیہ طور پر بند کر رکھی تھی ۔28فروری کو سرحد کھلنے کے بعد اب پاکستان نے ایران سے اپنے شہریوں کی وطن واپسی کا عمل روکنے کے لیے امیگریشن کا عمل دوبارہ سے بند کر رکھا ہے۔ لیکن ایرانی حکام ایسی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں کہ پاکستانی حکام کے پاس اپنے شہریوں کو بارڈر سے اندر آنے کی اجازت دینے کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔
13مارچ کو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں دو ہفتوں کے لیے مکمل طور پر بند کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ مگر پاکستانی سرحدی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے عدم تعاون کے باعث قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے باوجود پاک ایران تفتان سرحد مکمل طور پر بند نہیں ہوئی اور یوں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد بھی اپنا 14روزہ قرنطینہ کا وقت پورا کیے بغیر پاکستان میں داخل ہورہے ہیں اور اس وائرس کو پھیلا رہے ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’تفتان سرحد کبھی بند ہی نہیں ہوئی کیونکہ ایران ہمارے شہریوں کو مسلسل واپس بھیج رہا ہے۔ روز کبھی 10، کبھی 20 اور کبھی 50 پاکستانی شہری تفتان میں داخل ہو رہے ہیں۔‘ لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ ’سرحد بند ہونے کے باوجود ایرانی حکام پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ پر ایگزٹ سٹیمپ لگا کر انہیں پاکستانی سرحد کی طرف بھیج دیتا ہے اگر ہم انہیں وصول نہیں کرتے تو وہ دونوں ملکوں کے درمیان پھنس کر رہ جاتے ہیں وہاں انہیں کھانے پینے اور نہ ہی رہنے کی سہولیات مل سکتی ہیں اس لیے پاکستان کو مجبوراً اپنے شہریوں کو لینا پڑتا ہے۔‘
کوئٹہ میں بھی ایف آئی اے کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 28 فروری سے 13مارچ تک تقریباً چھ ہزار سے زائد پاکستانی شہری پاکستان میں داخل ہوئے جن میں اکثریت زائرین کی تھی۔ اس دوران سینکڑوں ایرانی شہریوں کو بھی واپس بھیجا گیا جبکہ کچھ مال بردار گاڑیوں کی آمدروفت بھی ہوئی تاہم قومی سلامتی کی کمیٹی کے فیصلے کے تحت 14 مارچ کو پاک ایران تفتان سرحد کو مکمل بند کیا گیا۔
پاکستانی شہریوں کو بھی امیگریشن نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا مگر ایران نے اس روز بھی 111 زائرین سمیت 165 پاکستانی شہریوں کو بھیجا۔ 14مارچ سے 30مارچ تک 600 سے زائد پاکستانی شہری ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ ایف آئی اے عہدے دار کے مطابق 31مارچ کو ایف آئی اے نے امیگریشن کا عمل مکمل طور پر بند کردیا مگر اس کے باوجود ایران نے 12 پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ پر ایگزٹ سٹیمپ لگا کر انہیں بھیج دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ‘شہری رات دیر تک دونوں ممالک کے سرحدی دروازوں کے درمیان پھنسے رہے جس کے بعد وزارت داخلہ اسلام آباد کی جانب سے ہمیں انسانی بنیادوں پر ان پاکستانی شہریوں کو امیگریشن دینے کی ہدایت کی گئی۔’ایف آئی اے عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اب امیگریشن سروس مکمل بند کردی ہے مگر فیصلے پر پوری طرح سے عملدرآمد ہمسایہ ملک کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔’
دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی کا کہنا ہے کہ ‘اگرچہ پاک ایران سرحد بند ہے مگر اس کے باوجود اگر ہمارے شہری سرحد پر پہنچتے ہیں تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انہیں داخلے کی اجازت دیں۔ تفتان میں سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔’ ترجمان کے مطابق ‘حکومت اور ایران میں ہمارے سفارت کار زائرین کے مسئلے پر ایرانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور باہمی مشاورت سے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ‘ بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بتایا کہ بلوچستان حکومت نے فروری کے آخر میں ہمسایہ ملک میں کورونا وائرس پھیلنے کے فوری بعد یہ منصوبہ بنایا تھا کہ پاکستانی شہریوں کو وطن واپسی سے پہلے ایرانی حدود میں دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس سلسلے میں وفاقی حکومت کے ذریعے ایرانی حکومت سے بات کی گئی اور خود وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے پاکستان میں ایران کے سفیر سے رابطہ کیا مگر ایرانی حکام نے ہماری درخواست نہیں مانی۔’
ہزاروں زائرین ایک ساتھ آنے اور تفتان کے علاقے میں بنیادی انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان حکومت کو انتظامات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور اپوزیشن رہنماﺅں کے بعد خود وزیراعظم عمران خان اور وفاقی حکومت کے نمائندوں نے بھی تفتان میں انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ اس بات پر بھی تنقید کی گئی کہ قرنطینہ کے معیار اور مقصد کو پیش نظر نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے زائرین کی بڑی تعداد کورونا وائرس کی شکار ہوئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button