قریشی، اسد عمر اور سواتی کی جیل میں لڑائی کیوں ہوئی؟

جیل بھرو تحریک میں بادل ناخواستہ گرفتاری دینے والے تحریک انصاف کے 3 نامور قیدی شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم سواتی کوٹ لکھپت جیل میں آپس میں لڑ پڑے۔ گرفتاری کی پہلی رات باہمی چپقلش کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد پنجاب حکومت نے عمرانڈو رہنماؤں کو الگ الگ جیلوں میں بھجوانے کا فیصلہ کیا۔

اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر کا کہنا تھا کہ ’جیل بھرو تحریک‘ میں رضاکارانہ گرفتاری دینے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم سواتی کے درمیان کوٹ لکھپت جیل میں پہلی رات ہی جھگڑا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں الک جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ڈان نیوز کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے نگراں وزیر نے بتایا کہ تینوں رہنماؤں میں گرما گرم ہو گئی اور اپنی اپنی گرفتاری کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے لگے۔عامر میر نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے پہلے ہی میڈیا کے سامنے یہ بیان دے دیا تھا کہ وہ چائے پینے جا رہے تھے لیکن گرفتار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اپنی گرفتاری پیش نہیں کی تھی اور وہ صرف گرفتاری دینے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کے لیے پنڈال پہنچے تھے، لیکن وہ بھی گرفتار ہو گئے۔علاوہ ازیں، وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا کہ ان کے جھگڑے کی وجہ سے ہی انہیں الگ الگ جیلوں میں بھیجا گیا تاکہ وہ ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں جس کی ذمہ داری حکومت پر آجائے۔

دوسری طرف جیل ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر جب اسد عمر ، شاہ محمود قریشی اور اعظم سواتی جیل میں اکٹھے ہوئے تو انہوں نے پہلے تو اپنی جماعت کے سربراہ عمران خان کو کوسنا شروع کیا کہ وہ خود تو مزے سے زمان پارک کے گھر میں بیٹھے ہیں جبکہ کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتاری کے لیے آگے کر دیا ہے۔مذکورہ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اچھی خاصی اسمبلی میں موجود تھی اور اس کے ارکان مراعات لینے کے ساتھ ساتھ حکومت کو ٹف ٹائم بھی دے رہے تھے کہ بغیر مشاورت کے استعفوں کا فیصلہ کر کے ہمیں ایوان سے فٹ باتھ پر پہنچا دیا گیا اورنوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ آج ہم جیل میں بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گرفتاری کے بعد ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف کے یہ تینوں رہنما آپس میں الجھ پڑے اور ایک دوسرے کو حالات کی ذمہ داری کا سبب قرار دینے لگے۔ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچنے والی تھی کہ بیچ بچاؤ کرادیا گیا۔

واضح رہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے بدھ 22 فروری سے جیل بھرو تحریک لاہور سے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تحریک کے پہلے روز شاہ محمود قریشی اور اسدعمر سمیت دیگر کئی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم اگلے ہی روز ان کی بازیابی کے لئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کر دی گئیں۔لاہور ہائیکورٹ جسٹس شہرام سرور  نے جیل بھرو تحریک میں گرفتار شاہ محمود قریشی، اسدعمر، اعظم سواتی اور ولید اقبال کی بازیابی کے لیے درخواستوں پر سماعت کی تھی۔سماعت میں پی ٹی آئی وکیل نے لاہور ہائیکورٹ میں بیان دیا ہے کہ ہم علامتی گرفتاری کیلئے گئے تھے لیکن انہوں نے سچ مچ گرفتار کرلیا۔ رہنماؤں رہا کرنے کا حکم دیں۔فاضل جج نے سرکاری وکیل کو 27 فروری تک رپورٹ جمع کر وانے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ خان کی جیل بھرو تحریک عوامی پذیرائی حاصل کر ے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ اس سے نہ تو تحریک انصاف کو کوئی سیاسی فائدہ ملا ہے اور نہ ہی عمران خان اس تحریک کے ذریعے وفاقی یا صوبائی حکومت کو کسی قسم کے دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں بلکہ تحریک کی ناکامی سے عمران خان کے نام نہاد بیانیہ کو زد ضرور پہنچائی ہے۔ دوسری جانب جیل بھرو تحریک میں پارٹی کی مرکزی قیادت کی گرفتاریوں کے بعد یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی گرفتاری سے سیاسی طور پر پارٹی کو کیا فرق پڑے گا؟

جب یہ سوال سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری سے کیا گیا تو انہوں نے بتایا ملکی تاریخ میں جتنی بھی ایسی تحریکیں چلتی ہیں ان کے نتائج فوری سامنے نہیں آتے، کیونکہ تحریکوں کے دوران جیلوں میں جانے والوں کا کردار ہی سیاسی ہوتا ہے۔بقول حسن عسکری: ’پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری سے سیاسی طور پر مشاورت اور حکمت عملی سے متعلق تو فرق پڑے گا، لیکن دیگر رہنما ابھی باہر ہیں جو اس تحریک کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘ان کے خیال میں پارٹی قیادت کو خود گرفتاری نہیں دینی چاہیے بلکہ باہر رہ کر کارکنوں کو منظم اور موٹیویٹ کرنا چاہئے تاکہ مطلوبہ نتائج برآمد ہو سکیں۔

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی بھی سمجھتے ہیں کہ کارکنوں کو متحد رکھنے کے لیے قیادت کا باہر ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا: ’پی ٹی آئی نے 200 کارکنوں اور چند رہنماؤں کی گرفتاری پیش کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر تفصیل کے مطابق 81 کارکن اور رہنماؤں نے گرفتاری دی ہے۔’دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اس تحریک میں مزید کتنے رہنماؤں کی گرفتاری ہوتی ہے اور جس طرح پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ان کے خلاف 16 ایم پی او اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس میں انہیں ایک ماہ تک جیلوں میں نظر بند رکھا جا سکتا ہے۔

سلمان غنی کے مطابق: ’ایسے حالات میں تحریک انصاف کی قیادت کے لیے مشاورتی عمل اور کارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے ان کی باہر زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی اس تحریک کے ذریعے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکی تو پھر ان کی کیا حکمت عملی ہوگی؟تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کارکنوں اور رہنماؤں کو پنجاب کی دور دراز جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی آواز دبائی جا سکے۔

اس ساری صورت حال میں تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو جیلوں میں بند رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ سارے فیصلے عمران خان خود کرتے ہیں۔ جیسے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ ان کا ذاتی عمل تھا اور اس میں تمام رہنماؤں کی مرضی شامل نہیں تھی۔ اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے دوران انہوں نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا وہ بھی ان کا ہی فیصلہ تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی غیر موجودگی میں بھی کارکن عمران خان کی ہی سنیں گے اور حکمت عملی بھی وہی بنائیں گے، جس پر عمل بھی ہوتا رہے گا، لہٰذا عمران خان حکومت مخالف جو بھی کال دیں گے، کارکن اس پر لبیک کہیں گے اور تحریک جاری رہے گی۔

حکومت کو مشاورت سے الیکشن تاریخ مقرر کرنے کا حکم

Related Articles

Back to top button