شہباز نے مفرور بیٹے کو ترک صدر کیساتھ کیوں بٹھایا؟

سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے حال ہی میں اپنے مفرور بیٹے سلیمان شہباز کو ترکی کے سرکاری دورے کے دوران لندن سے بلا کر پاکستانی وفد میں شامل کروانے کے عمل نے انہیں شدید مایوس کیا ہے کیونکہ یہ سراسر اقربا پروری اور قانون شکنی تھی؟ انصار عباسی کے بقول شہباز نے نہ صرف اپنے بیٹے کو وفد میں شامل کیا بلکہ ترک صدر طیب اردوان کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں بھی اسے مرکزی ٹیبل میں اپنے اور ترک صدر کے ساتھ بٹھایا۔

نیوٹرلز کے کرپٹ حکمرانوں کا ساتھ دینے کا تاثر ہے

سینئر صحافی کے مطابق معاملہ یہ نہیں کہ وزیراعظم اپنے بیٹے کو دورے پر ہمراہ کیوں لے گئے اور کیوں مرکزی ٹیبل پر ساتھ بٹھایا۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ سلیمان شہباز پاکستانی عدالتوں کی جانب سے مفرور قررار دیے جا چکے ہیں، وہ اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے کیس میں مطلوب ہیں۔ ایک مفرور جو کہ ریاست کو مطلوب ہے، جو اگر پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتا ہے تو قانون کے مطابق گرفتار کیا جائے گا، اُسے بیرون ملک سرکاری دورے پر وزیراعظم نے اپنے وفد میں شامل کر لیا اور پھر وی آئی پی بناتے ہوئے اسے ترک صدر کے ساتھ بھی بٹھا دیا۔ انصار کا کہنا ہے کہ اگر شہباز شریف کو اپنے بیٹے سے یا اُن کے بیٹے کو اپنے باپ سے ملنے کی خواہش تھی تو ترکی جا کر ہوٹل میں مل لیتے، جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن سرکاری وفد میں شامل کرنا ایسا ہی ہے جیسے ریاستِ پاکستان کا مذاق اُڑایا جا رہا ہو۔ اس معاملے میں شہباز شریف نے یقیناً بہت سوں کو مایوس کیا۔ کسی بھی سمجھ دار فرد سے ایسے عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بحیثیت وزیراعظم شہباز شریف کی تو یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ قانون اور عدالت سے بھاگے ہوئے ہر شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائیں، کجا یہ کہ کسی مفرور کو سرکاری وفد میں شامل کر کے اپنے ہی ملک کا مذاق اُڑوائیں۔

سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ نجانے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایسا رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے جیسے قانون کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور وزیراعظم بن کر آپ جو جی میں آئے کرسکتے ہیں۔ شہباز شریف پہلے ہی اس لیے تنقید کی زد میں ہیں کہ اُن کا بڑا بیٹا حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بن گیا جبکہ دونوں باپ بیٹا ایسے وقت میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنے جب اُنہیں مبینہ کرپشن کیسوں میں آئے روز عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی ایک کیس میں ایف آئی اے نے عدالت سے اجازت طلب کی کہ اُسے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ دونوں ملزموں سے تفتیش کی جا سکے۔ اگرچہ عدالت نے ان دونوں کو گرفتار کرنے کی ایف آئی اے کو اجازت نہیں دی لیکن ہر دس پندرہ دن کے بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو کسی نہ کسی عدالت میں ملزم کے طور پر پیش ہونا پڑتا ہے جو ایک عجیب ہی صورتحال ہے۔ یقیناً ماضی میں سیاستدانوں کے خلاف خصوصاً نیب نے جھوٹے سچے کیس بنائے اور اس کا شکار شریف فیملی کے ممبران بھی رہے لیکن اب جبکہ شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں تو شریف فیملی یا حکومتی اتحاد میں شامل دوسرے رہنماؤں کے خلاف کرپشن کیسوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی ایسا طریقہ نہ اپنایا جائے جس سے یہ محسوس ہو کہ حکومت کے پریشر پر ایسا کیا جا رہا ہے۔

انصار عباسی کے بقول ایسے تمام کیسوں میں چاہے وہ شریف فیملی کے خلاف ہوں یا حکومتی اتحاد میں شامل دوسرے رہنماؤں کے خلاف، ان کی تحقیقات اور پروسیکیوشن کو آزاد اور حکومتی دباؤ سے پاک کرنے کے لیے کسی آزاد کمیشن کے تحت کیا جائے۔ اچھی شہرت کے مالک ریٹائرڈ ججوں اور پولیس افسروں پر مشتمل کمیشن بنایا جا سکتا ہے تاکہ یہ شائبہ بھی نہ ہو کہ موجودہ وزیراعظم اور حکومتی اتحاد کے دوسرے رہنما مل ملا کر اپنے اپنے کرپشن کیس ختم کروا رہے ہیں۔ کیس اگر جھوٹے بنائے گئے تو کسی کو فکر نہیں ہونی چاہیے اور اگر ان کیسوں میں جان ہے تو کسی حکمران کو یہ آزادی نہیں ملنی چاہیے کہ وہ اپنے خلاف کیس ختم کرانے کے لیے اپنے ریاستی اختیار کو استعمال کرے۔

Related Articles

Back to top button