شہباز شریف کا اپنی حکومت برقرار رکھنے پر اصرار کا امکان

پنجاب کے ضمنی الیکشن میں شکست کھانے کے بعد اب یہ سوال زیربحث ہے کہ کیا حکمران جماعت مسلم لیگ ن اب بھی قومی اسمبلی کی معیاد مکمل کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے گی؟ زیادہ تر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ کم از کم وزیراعظم شہباز شریف اب بھی یہی چاہیں گے کہ عام انتخابات کی مُدت کو آگے کی جانب کھینچا جائے، پھر وزیراعظم آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کریں جس کے بعد انتخابات کا اعلان کر دیں۔ یاد رہے کہ عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد یہ خبر عام تھی کہ انہیں نومبر سے پہلے نکالنے کا فیصلہ اس لیے ہوا تھا تا کہ وہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو نیا آرمی چیف نہ بنا دیں۔
اینکر پرسن اقرارالحسن کا دعا زہرا کے اغوا ہونے کا دعویٰ
دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق عمران کی جانب سے دباؤ بڑھایا جائے گا کہ فوری طور پر وفاقی حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کااعلان ہو۔ ضمنی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’ملک کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ فوری طور پر صاف اور شفات الیکشن ہے، جو کہ غیر متنازع الیکشن کمیشن کروائے، کوئی اور راستہ سیاسی بے یقینی اور مزید معاشی افراتفری کا باعث بنے گا۔‘ خود حکمران جماعت کے بعض رہنماؤں نے تسلیم کیا ہے کہ عمران خان کا فوری انتخابات کے انعقاد کا دباؤ وفاقی حکومت کے لیے برداشت کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت یہ دباؤ برداشت نہیں کر پاتی تو یہ ضمنی انتخابات کے نتائج کا مینڈیٹ ہے جس نے یہ واضح کر دیا کہ پی ٹی آئی ایک بڑی سیاسی حقیقت ہے اور اہم ملکی فیصلے اِس کی منشا کے بغیر نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ عمران خان فوری الیکشن کروانے کے لیے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں بھی ختم کر سکتے ہیں جس سے وفاقی حکومت بھی دباؤ میں آ جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ کہتے ہیں ’حکومت پر فوری انتخابات کے انعقاد کا دباؤ پہلے بھی تھا، جو اب مزید بڑھ جائے گا۔اگر عمران خان تصادم کے بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اپناتے ہوئے مطالبہ کریں تو شاید سیاسی جماعتیں رضامند ہو جائیں۔‘
ویسے تو ضمنی انتخابات صوبائی اسمبلی کے چند گنے چنے حلقوں میں ہوئے ہیں اور بظاہر تو ان ضمنی انتخابات کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مبصرین اصرار کرتے ہیں کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو شکست کے بعد وفاقی حکومت قائم رکھنے کا سیاسی اور اخلاقی جواز نہیں رہتا۔
لیکن اگر مسلم لیگ ن کسی نہ کسی طرح وفاقی حکومت قائم رکھتی ہے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی وفاقی حکومت ہو گی جو خالصتاً اسلام آباد کے اقتدار تک محدود ہو گی۔ یہ بہت ہی انوکھا معاملہ ہو گا کہ وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سمیت گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کہیں پر بھی حکومت نہیں رکھتی۔
اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا شہباز شریف اسلام آباد کے چند مربع کلومیٹر پر حکومت کریں گے؟ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن کے پاس وفاقی حکومت برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی بھی ایسا ہی خیال ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کو فوری طوپر الیکشن میں جانا چاہیے تھا اور اب بھی اس کو عوام کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔‘ انکا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن کے پاس جوا ز نہیں، لیکن اگر وہ وفاقی حکومت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کا حق ہے۔‘
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج مسلم لیگ ن کے لیے ایک پہلو یہ بھی رکھتے ہیں کہ عمران خان کے بیانیہ نے مریم نواز کے بیانیہ پر فوقیت پائی ہے۔ ان ضمنی انتخابات میں مریم نواز نے عمران خان پر کڑی تنقید کا بیانیہ ترتیب دیا تھا جس میں اضافہ یہ کیا گیا کہ ’اچھے دِن آنے والے ہیں۔‘ مریم نواز کی تنقید کا سارا زور عمران کے ساڑھے تین برس کی کارکردگی پر رہا، وہ فرح گوگی کو موضوع بنا کر بنی گالہ کو کرپشن کا گڑھ کہتی رہیں۔ واضح رہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ عوام سے مخاطب ہوتے وقت مریم نواز کا طرزِ مخاطب یکسر تبدیل ہوا۔ لیکن شاید لوگ وہی فوج مخالف بیانیہ سننا چاہتے تھے، جو وہ گذشتہ چار پانچ سال سے سُن رہے تھے۔
اگر ضمنی انتخابات کے تناظر میں عمران کے بیانیہ کی بات کریں تو وہ مسلسل کہتے رہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں کے ٹولے کو اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر ہمارے اوپر لا کر بٹھایا گیا۔ یعنی وہ جہاں شریف خاندان پر کڑی تنقید کرتے تھے وہاں وہ سب سے زیادہ تنقید فوجی اسٹیبلشمنٹ پر کر رہے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی فوج کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتے تھے، کبھی نیوٹرلز کا اور کبھی مسٹر ایکس اور وائی کا۔ تاہم وہ اپنا اسٹیبلشمنٹ مخالف چورن بیچنے میں کافی کامیاب رہے حالانکہ 2018 میں وہ خود بھی فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر ہی برسراقتدار آئے تھے۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی ضمنی انتخابات ہار جاتی تو یہ تاثر مزید مضبوط ہو جاتا کہ وہ جلسے جلوسوں کی جماعت ہے جو گذشتہ الیکشن بھی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جیتی تھی اور کوئی بھی الیکشن اُن کی سپورٹ کے بغیر نہیں جیت سکتی۔ اس طرح یہ کامیابی اگلے الیکشن پر اس لحاظ سے بھی اپنے اثرات چھوڑے گی کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر بھی جیت سکتی ہے۔ دوسری جانب نواز لیگ پر ماضی کے برعکس پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت ہونے کا ٹھپہ لگ چکا ہے جسے ہٹانا کافی مشکل ہوگا۔
اسکے علاوہ مسلم لیگ ن کی شکست سے پارٹی کے اندر اختلافات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ مثلاً نواز شریف کیمپ سے وابستہ رہنما کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف کا بیانیہ غلط ثابت ہوا ہے، شہباز کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد حکومت سازی کی جانب نہیں جانا چاہیے تھا۔ جبکہ شہباز شریف کے کیمپ کی جانب سے یہ کہا جا سکتا ہے، چونکہ مریم نواز انتخابی مہم چلا رہی تھیں لہٰذا یہ مریم کی ناکامی ہے۔ یوں پارٹی کے اندر دوریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ تاہم شہباز شریف نے الیکشن میں شکست کے بعد جاری پہلے بیان میں مریم نواز کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے پوری محنت سے انتخابی مہم چلائی اور میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ الیکشن میں شکست کے بعد نواز شریف کی جماعت میں اندرونی اختلافات کا کوئی امکان نہیں۔ انکا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کا حکومت سازی کا فیصلہ مکمل طور پر نواز شریف کی آشیر باد سے ہوا تھا۔ نواز شریف کا فیصلہ ہی حتمی تھا۔ البتہ اُس وقت پارٹی کے اندر کافی لوگ یہ کہتے تھے کہ جلد الیکشن کی طرف جانا چاہیے۔ لیکن اب یہ بوجھ مسلم لیگ ن کو اُٹھانا پڑے گا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی کامیابی نے پنجاب میں اینٹی اسٹیبلیشمنٹ ووٹ بینک کو مضبوط کردیا ہے اور وہ بھی اسٹیبلشمنٹ نواز سمجھے جانے والے صوبے میں۔ انکا کہنا یے کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی اور اسٹیبلیشمنٹ سے قربت رکھتی تھی تو مسلم لیگ ن نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا کر ضمنی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹیں، اور نواز شریف اور مریم کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ مسلسل بیانیہ اپنا رنگ دکھاتا رہا۔ لیکن جب عمران حکومت ختم ہوئی، اور مسلم لیگ ن اور فوجی اسٹیبلیشمنٹ کی دوریاں مٹ گئیں، تو پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں خلیج پیدا ہو گئی جس کے بعد عمران نے کھلے عام فوج مخالف بیانیہ اپنا لیا جس کا فائدہ انہیں ضمنی الیکشن میں ہوا ہے۔ اگرچہ عمران کے پاس، چور، غدار، ڈاکو جیسے نعرے تھے اور مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کا الزام بھی موجود تھا مگر وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت سازی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے ہونے کے الزام نے سب سے زیادہ کام دکھایا۔ یعنی نواز شریف کی پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ چھوڑ دیا، اور عمران نے اسے اپنا لیا، حالانکہ عمران قطعی طور پر اینٹی اسٹیبلیشمنٹ نہیں، ان کا فوج سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ مجھے اقتدار میں لانے کے بعد وقت پورا کیوں نہیں کرنے دیا گیا اور میری جگہ شہباز شریف کو اقتدار کیوں دے دیا گیا؟
تاہم یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف کا ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ شہباز شریف کے اقتدار میں آنے کے بعد کہیں کھو گیا تھا، خصوصا ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی والوں کو اپنی جماعت کے امیدوار بنانے کے بعد۔ لیکن ضمنی الیکشن میں لوگوں نے ووٹ کو عزت دی اور لوٹوں کو مسترد کردیا جسکے نتیجے میں پی ٹی آئی جیت گئی اور نواز لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے میں اگر نواز شریف اپنی جماعت کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں خود ساختہ جلاوطنی چھوڑ کر ملک واپس آنا ہوگا اور اپنی پارٹی کو سنبھالنا ہوگا۔