مری میں صورتحال اب بھی تشویشناک، مزید نقصان کا خدشہ

مری میں حکومتی نااہلی کی وجہ سے دو درجن افراد کی قیمتی جانیں ضائع ہو جانے کے باوجود متاثرہ علاقے میں صورتحال تشویشناک ہے، امداد اور ریسکیو کے حکومتی دعوؤں باوجود ہزاروں لوگ اب تک وہاں پھنسے ہوئے ہیں اور مزید انسانی جانوں کے نقصان کا خدشہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مری میں اب بھی سینکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں اور حکومت کی جانب سے امدادی کارروائیوں کے دعوؤں کے باوجود نہ تو سڑکیں کلئیر ہو پا رہی ہیں اور نہ ہی لوگوں کو گھروں کو واپسی کی کوئی صورت نظر آرہی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سڑکیں کلیئر کرنے میں ابھی مزید 48 گھنٹے لگ سکتے ہیں اور گاڑیوں میں موجود لوگوں کو ریلیف کیمپوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔
مری کے اصل حالات اس وقت کیا ہیں کسی کو اندازہ نہیں ہے کیونکہ وہاں بجلی بند ہے، انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے، مقامی انتظامیہ اور آرمی کے جوان ریسکیو آپریشن تو کررہے ہیں مگر ابھی بھی سینکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں 36 گھنٹے گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان لوگوں کے پاس کوئی امداد نہیں پہنچ سکی اور نہ ہی ریسکیو کا آپریشن وہاں شروع کیا جاسکا۔
حکومتی ریسکیو آپریشن کا پول تب کھلا جب مری کے ایک مقامی شخص نے اپنے گھر سے باہر کی صورتحال بتائی اور لوگوں سے بات چیت کی جو 36 گھنٹوں سے وہاں پر پھنسے ہوئے ہیں اور جنہیں ابھی تک ریسکیو نہیں کیا جاسکا۔ جو صورتحال اس لائیو سٹریم میں بتائی گئی اس سے مری میں پھنسے ہوئے لوگوں کے عزیزوں کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں انکا کہنا ہے کہ حکومت ریسکیو آپریشن مزید تیز کرے کیونکہ سینکڑوں گاڑیاں اورہزاروں لوگ اب بھی مری کے مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں اور سب اچھا ہے کی خبر غلط ہے۔ اس وقت مری کے حالات بہت تشویشناک ہیں اور غفلت برتی گئی تو ہم کئی اور مزید قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا یے کہ مری میں ہونے والے افسوس ناک سانحے کی پہلی ذمہ داری حکومت پنجاب اور مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جنہیں معلوم تھا کہ مری میں ایک وقت میں صرف 5 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش موجود ہے لیکن سوا لاکھ گاڑیوں کو گھسنے دیا گیا جس سے ٹریفک جام ہو گیا۔ انکا کہنا ہے کہ انتظامیہ کو عوام کو مری جانے سے روکنے کے لیے ٹویٹر پر روکنے کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے چاہیے تھے۔ تاہم عمران خان سمیت حکومتی لوگ کہتے ہیں کہ سیاح خود بھی اس سانحے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ جب انہیں معلوم تھا کہ موسم خراب ہو چکا ہے اور رش گنجائش سے زیادہ ہوچکا ہے تو انہیں وہاں کا رخ نہیں تھا کرنا چاہیے تھا۔
این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے ایک ہفتہ قبل الرٹ جاری کیا تھا تمام متعلقہ محکموں اور میڈیا کو بھی بھیجا گیا۔
پاکستانیو، قصور آپ کا ہوا
میڈیا نے بھی سیاحوں کی مال روڑ مری پر موج مستیاں والے پیکجز تو خوب چلائے مگر کسی ٹی وی چینل نے عوام کو پیشگی خطرے سے آگاہ نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پر ناقدین پاک فوج کی جانب سے ریسکیو آپریشن میں شامل ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب سانحہ ہو رہا تھا تو مری اور گلیات میں موجود ہزاروں جوانوں کو لوگوں کی مدد کے لئے باہر نکالا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ اب جبکہ دو درجن سے زائد افراد کی جانیں جا چکی ہیں تو ان کی لاشوں کو نکالنے کے عمل کو ریسکیو مشن کا نام دیا جا رہا ہے۔
اس دوران بہت ساری ایسی ویڈیوز سامنے آئیں ہیں جن میں مقامی لوگ بڑھ چڑھ کر لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے متاثرہ سیاحوں پر اپنے گھروں کے دروازے کھو دیے اور انہیں کھانے پینے کی اشیا فراہم کی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر مقامی لوگ اور کچھ ہوٹل مالکان کی جانب سے پوسٹیں کی جا رہی ہیں کہ اگر کسی سیاح کو مدد کی ضرورت ہو تو وہ ہمارے ہوٹل میں آ سکتا ہے اور اس سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جائے گا۔
دوسری جانب موقع پرست لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ دنیا، جیو نیوز اور ڈان کے رپورٹرز کے مطابق کل رات ہوٹل مالکان ایک رات گزارنے کا 20 سے چالیس ہزار روپیہ مانگ رہے تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں نے ہوٹلوں میں جانے کی بجائے اپنی گاڑیوں میں ہی رات گزارنا مناسب سمجھا۔ ان میں سے کچھ بدقسمت لوگ جو مری میں پکنک ماننے آئے تھے زندگی کی بازی ہار گئے۔ گاڑیوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی ایک وجہ شدید سردی کے علاوہ گاڑی کا شیشہ بند کر کہ ہیٹر آن رکھنا بھی بتائی جارہی ہے
جس سے زہریلی کاربن مونو آکسائیڈ اندر اکٹھی ہو جاتی ہے۔ سیالکوٹ کے ایک سیاح نے بتایا برف کی وجہ سے پھنسی گاڑیوں کو نکالنے میں استعمال ہونے والی چین مقامی لوگو ہزاروں میں ییچ رہے ہیں۔ مقامی ڈرائیور برف سے گاڑی نکالنے کیلئے سیاحوں سے پانچ ہزار روپے تک وصول کررہے ہیں۔