تحریک انصاف نے ضمنی الیکشن کس حکمت عملی سے جیتا؟

پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کے پیچھے کارفرما تحریک انصاف کی حکمت عملی اب سامنے آ گئی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کو ایجنسی سٹائل میں بڑے سسٹمیٹک اور منظم طریقے سے سائنسی بنیادوں پر چلا رہے ہیں اور الیکشن لڑنے حکمت عملی بھی سائنسی بنیادوں پر ترتیب دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں کئی حکومتی محکموں سے ووٹرز کا قیمتی ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا جسے ضمنی الیکشن میں بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا۔
معلوم ہوا ہے کہ پی ٹی آئی نے نادرا سے 20 حلقوں کے تمام ووٹرز کا مکمل ذاتی ڈیٹا حاصل کر رکھا تھا۔ تحریک انصاف والوں نے الیکشن مانیٹرنگ کے لیے لاہور میں ایک سیل بنا رکھا تھا جس نے پہلے مرحلے میں ڈور ٹو ڈور رابطہ مہم شروع کی اور دوسرے مرحلے میں ووٹرز کے ساتھ مسلسل فون پر رابطہ رکھا اور الیکشن والے دن تک انہیں ووٹ ڈالنے کے لئے آمادہ کرتے رہے۔
یاد رہے کہ پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 20 میں سے پندرہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ نون صرف چار نشستیں حاصل کر سکی ہے۔مسلم لیگ نون کے لیے ان ضمنی انتخابات میں شکست صرف ان 15 حلقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر حمزہ شہباز کی پنجاب حکومت اور شہباز شریف کی وفاقی حکومت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے اندازوں کے برعکس تحریک انصاف کی کامیابی نے نواز لیگ کی قیادت کو چکرا کر رکھ دیا ہے، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اتنی بڑی کامیابی آخر کیسے حاصل کر لی اور اس کے لیے اس جماعت کا لائحہ عمل کیا رہا۔
گورنر بننے والے بلیغ سرائیکی صوبے کے حامی کیوں نہیں؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اپنے دور حکومت میں مہنگائی کی وجہ سے عوامی تنقید کا شکار تحریک انصاف نے یکدم عوامی مقبولیت اس وقت دوبارہ حاصل کرنا شروع کی جب عمران خان نے ’امریکہ کے حکم پر پاکستان میں رجیم چینج‘ کے خلاف بیانیہ اپنایا اور عوامی جلسوں اور تقاریب میں اسے دہرانا شروع کیا۔ ’رجیم چینج‘ کے فوراً بعد تحریک انصاف نے مطالبہ شروع کیا کہ فوری الیکشن کروائے جائیں کیونکہ ملک کے مسائل کا حل صرف ایک عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آئی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ اپنے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریک انصاف نے اسلام آباد کی جانب 25 مئی کو ’پرامن‘ لانگ مارچ کی کال دی لیکن حکومت کی جانب سے ابتدا میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تاہم عمران خان اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اس نئی صورتحال میں تحریک انصاف نے اپنے احتجاج کی تحریک کو نئی شکل دی اور عوام کو شام کے وقت شہروں میں جمع کرنا شروع کیا۔
تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ کا موڈ دیکھ کر احتجاج میں تھوڑی تبدیلی کی اور لوگوں کو تین دن، چار دن، ہفتے بعد شام کو نکالنا شروع کیا کہ وہ بڑی سکرینوں پر عمران خان کی تقریر سُنیں۔ دوسری جانب سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کی مہم میں واضح فرق صرف عمران خان تھے، جنھوں نے صوبے کے تمام 20 حلقوں میں طوفانی دورے کیے اور عوام کو یہ ذہن نشین کروایا کہ پاکستان کی بقا صرف خود مختاری اور امریکا سے حقیقی آزادی حاصل کرنے میں ہے۔
تحریک انصاف وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ ان کی پارٹی نے انتخابات جیتنے کے لیے ہمہ جہتی حکمت عملی بنائی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے یہ حکمت عملی بنائی کے الیکشن کمیشن کی کسی معمولی سے معمولی غلطی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا۔ ہم نے الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹوں میں غلطیوں سے لے کر پولنگ ایجنٹس کی تعیناتی کے حوالے تک مصروف رکھا اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ پارٹی کی ’تمام قیادت نے یہ یقینی بنایا کہ عوام یہ جانے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو بیرونی دباؤ کی وجہ سے رخصت کیا گیا اور اس وقت ضروری ہے کہ وہ باہر نکلیں اور بیرونی آقاؤں اور ان کے پاکستان میں حواریوں کے خلاف جہاد کریں۔‘
ڈاکٹر یاسمین راشد نے بتایا کہ پارٹی نے ہر گھر کے دروازے پر جا کر لوگوں سے ووٹ مانگے اور پولنگ والے دن لوگوں کو گھروں سے پولنگ سٹیشن تک لے کر آئے۔ پھر پولنگ ایجنٹس نے نتائج آنے تک ووٹوں پر پہرہ بھی دیا۔ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف نے ایک مانیٹرنگ سیل بنایا جس نے پہلے ڈور ٹو ڈور مہم چلائی اور پھر ووٹرز کے ساتھ فون پر مسلسل رابطہ رکھا۔ مانیٹرنگ سیل کے ایک ورکر نے بتایا کہ ہم نے تمام 20 حلقوں میں لاکھوں فون کالز کیں۔ آخری دنوں میں ووٹرز کال سنتے ہی کہتے تھے کہ ہم پولنگ والے دن پولنگ سٹیشن پر خود ہی صبح صبح پہنچ جائیں گے۔‘
فواد چودھری کے مطابق ہم نے پنجاب کے ضمنی الیکشن کے دوران اپنے بندے بطور آزاد امیدوار بھی کھڑے کئے تھے اور انکے پولنگ ایجنٹس بھی دیے تھے تاکہ ہر پولنگ سٹیشن پر ہمارے پولنگ ایجنٹس کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہو اور الیکشن بہتر طریقے سے مانیٹر ہو سکے۔تحریک انصاف کے امیدواروں نے ہر حلقے کی تمام یونین کونسلز میں مانیٹرنگ روم بنائے اور گاڑیاں دی تھیں۔
تحریک انصاف نے ہر پولنگ سٹیشن کے باہر دو گاڑیاں اور چھ موٹر سائیکلوں پر ورکرز کو بٹھایا۔ ان ورکرز نے بیلٹ باکسز کی ریٹرننگ آفیسر کے دفتر تک ترسیل کی ویڈیوز بنائیں تاکہ کوئی بیلٹ باکس کو راستے میں غائب نہ کر سکے۔ لہذا تحریک انصاف نے نون لیگ کے گڑھ لاہور میں بھی تاریخی کامیابی حاصل کی۔