TTP کو ‘لگام’ ڈالنے کیلئے طالبان چیف سے بات کرنے کا فیصلہ

پیر کو پشاور کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد پاکستان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پشاور پولیس لائنز مسجد میں خود کش حملے کے بعد شدت پسندوں کو ‘لگام’ ڈالنے کے لیے افغان طالبان سربراہ سے دو ٹوک بات کی جائے گی۔

وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیرِاعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ پاکستان دو وفود کابل اور تہران بھیجے گا جو متعلقہ حکام پر زور دیں گے کہ وہ دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں۔

خیبرپختونخوا کے سینئر سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی وفد طالبان کی اعلٰی قیادت سے اس حوالے سے بات کرے گا۔اُن کا کہنا تھا کہ جب ہم اعلٰی قیادت کی بات کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم طالبان چیف ہبت اللہ اخوندزادہ سے اس سلسلے میں بات کریں گے۔

پاکستان نے دونوں ہمسایہ ملکوں میں اپنا وفد بھجوانے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب 30 جنوری 2023کو پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں حکام نے 101 ہلاکتوں کی تصدیق کی تھی۔ اس دھماکے کے بعد پاکستان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جب کہ حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستانی طالبان خود کو افغان طالبان کے نظریات سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں۔ طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قندھار میں ہیں اور وہیں سے احکامات جاری کرتے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے افغان طالبان سربراہ سے بات کرنے کے معاملے پر افغان طالبان نے تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا۔لیکن اس سے قبل پشاور دھماکے کے بعد پاکستان کے وفاقی وزرا کی جانب سے کابل حکومت پر اُنگلیاں اُٹھائی گئی تھیں۔ اس پر ردِعمل دیتے ہوئے طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کہا تھا کہ پاکستان دوسروں پر انگلیاں اُٹھانے کے بجائے اپنا گھر درست کرے۔امیر خان متقی نے کہا تھا کہ وہ 20 برس سے حالتِ جنگ میں ہیں اور اُنہوں نے کبھی ایسا خود کش حملہ نہیں دیکھا جس سے مسجد کی پوری چھت ہی گر جائے۔ طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ نے پاکستان کو اس معاملے پر جامع تحقیقات کا مشورہ دیا تھا۔

افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بات چیت کے چینلز موجود ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ بظاہر باہمی بد اعتماد ی کی فضا موجود ہے۔ان کے بقول پاکستان میں پشاور میں ہونے والے مہلک خود کش حملے کے بعد پاکستان کی حکومت کو ملک کے اندر دباؤ کا سامنا ہےاور اسی وجہ سے پاکستانی وزرا کے بیانات آئے کہ سرحد پار سے پاکستان مخالف شدت پسند وں گروپ پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔طاہر خان کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک افغانستان سے شکوے نہیں کرتے، تاہم پاکستان مخالف شدت پسندوں کی بڑی تعداد افغانستان میں مقیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی زیادہ ہوتی ہے۔

شدت پسند ی اور عسکریت پسندی کے ماہر اور کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر نعیم احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے معاملے پر ایک واضح پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول نہیں کی لیکن اس کے باوجود اس حملے میں ان عناصر کے ملوث ہونے کا امکان ہے جن کا ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلق رہا ہے۔نعیم احمد نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان پر تنقید کرنے کے بجائے اس بات کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ پشاور میں ہونے والا حملہ کیسے ہوا ہے اور سیکیورٹی لیپس کیوں ہوا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے اندر اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کرنا ہو گی کیوں کہ ان کے نظریات ایک جیسے ہیں۔نعیم احمد کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سخت بیانات کےتبادلے کےباوجود دونون ممالک کے درمیان پس پردے رابطے موجو د ہوں گے۔لیکن اُنہوں نے کہا جب پاکستان کی طرف سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہونےوالے مہلک حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے تو افغان طالبان فوراً اس کی تردید کر دیتے ہیں۔

یاد ر ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان میں شدت پسندی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن گزشتہ سال افغان طالبان کی وساطت سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے بات چیت کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔بعدازاں نومبر میں ٹی ٹی پی نے پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت ختم کرتے ہوئے ملک بھر میں عسکری کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

Related Articles

Back to top button