پاکستانی عوام اب تک کرونا ویکسین سے محروم کیوں؟


اب جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے عوام کو بچانے کے لیے کرونا کی ویکسین کا استعمال شروع کر دیا ہے، پاکستان اب بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں کووڈ 19 سے بچاؤ کی ویکسین ابھی دستیاب نہیں ہو سکی اور اس مہلک وبا سے مرنے والوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ویکسین کی عدم دستیابی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ازخود اسے تیار نہیں کرسکتا اور اسکو خریدنے کے لیے حکومت کا تاحال کسی ملک سے کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہو پایا۔
حال ہی میں پاکستان میں ادویات کے قومی ریگولیٹری ادارے ڈریپ نے دو غیر ملکی کمپنیوں کی ویکسین پاکستان میں استعمال کرنے کی منظوری دی ہے۔ ان میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی وہ ویکسین شامل ہے جو دوا ساز کمپنی ’ایسٹرا زینیکا‘ تیار کر رہی ہے جبکہ دوسری ویکیسن چین کی کمپنی ’سائنو فارم‘ نے تیار کی ہے۔ تاہم اسکے باوجود بھی فوری طور پر ویکسین کے پاکستان میں دستیاب ہونے کا امکان نہیں۔ یاد رہے کہ ایسٹرا زینیکا پہلے ہی سے برطانیہ اور انڈیا سمیت کئی ممالک کو بڑی تعداد میں ویکسین مہیا کرنے کے معاہدے کر چکی ہے۔ سائنو فارم کی ویکسین بھی چین سمیت کئی ممالک میں پہلے سے استعمال ہو رہی ہے اور دیگر کئی ممالک کے ساتھ ان کے معاہدے ہو چکے ہیں۔
تاہم پاکستان کا ان دونوں کمپنیوں سے ویکسین کی خریداری کے لیے کوئی دو طرفہ باضابطہ معاہدہ نہیں ہو پایا۔ اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے وزیرِاعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ حکومت نے چین کی سائنو فارم سے ویکسین کی دس لاکھ خوراکوں کے لیے ’پری بکنگ‘ کر رکھی ہے یعنی باضابطہ آرڈر دینے سے پہلے اتنی خوراکیں محفوظ کر لی گئی ہیں۔ حکام کو امید ہے کہ مارچ میں پاکستان کو چین سے یہ ویکسین مل سکتی ہے تاہم حکومت نے کوئی واضح تاریخ نہیں بتائی۔ اس بارے وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت اور شوکت خانم ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر فیصل سلطان سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب پوچھا گیا کہ پاکستان اب تک خریداری کا معاہدہ کیوں نہیں کر پایا تو نیشنل ٹاسک فورس برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چیئرمین اور پاکستان میں کووڈ 19 کی ویکسین کے ٹرائلز اور اس کے حصول کے عمل کی نگرانی کرنے والوں میں شامل ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے بتایا کہ کسی کمپنی سے ویکسین خریدنے کا معاہدہ نہ ہو پانے کی وجہ حکومت کی طرف سے تاخیر نہیں ہے۔ ’در حقیقت اس وقت کوئی بھی ویکسین تیار کرنے والی کمپنی کوئی بڑا آرڈر لینے کو تیار نہیں۔ ہر کپمنی کی ویکسین تیار کرنے کے صلاحیت مختلف ہے اور ان کے پاس پہلے ہی سے آرڈرز بہت زیادہ ہیں اس لیے وہ کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں کرنا چاہتے۔‘ تاہم محکمہ صحت کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایسی ویکسینیشن کی بکنگ پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور ہم اس معاملے میں پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس ویکسین کے حصول کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟پاکستان کے پاس حکومتی معاہدے کے علاوہ کرونا کی ویکسین حاصل کرنے کے دو مزید طریقے ہیں: ان میں سے ایک طریقہ کوویکس ہے جو پاکستان کی 20 فیصد آبادی کے لیے ویکسین حکومت کو مہیا کرے گا۔ کوویکس عالمی ادارہ برائے صحت، گاوی اور سی ای پی آئی کا اتحاد ہے۔دیگر کئی ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی اس پر دستخط کر رکھے ہیں، یوں کوویکس دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی یہ ویکسین مفت فراہم کرنے کا پابند ہے۔ لیکن سوال یہ یے کہ کیا کوویکس پاکستان کو جلد ویکسین دے سکتا ہے؟ اس بارے میں وزیرِاعظم کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ پاکستان کو کوویکس کے ذریعے جلد ہی چند ہفتوں میں ویکسین مل سکتی ہے۔ تاہم صوبہ پنجاب کے محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ کوویکس کے ذریعے پاکستان کو کرونا ویکسین کی فراہمی رواں برس اگست یا ستمبر سے پہلے ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس طرح کوویکس سے ملنے والی یہ ویکسین مرحلہ وار پاکستان کی 20 فیصد آبادی کے لیے فراہم کی جائے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا کوویکس سے ملنے والی امدادی ویکسین پاکستان کی ضرورت کے لیے کافی ہو گی؟ اسکا جواب نہ میں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا نجی کپمنیاں جلد ویکسین ملک میں لا سکتی ہیں؟ حکومتی سطح پر خریداری کے علاوہ ویکسین پاکستان لانے کا دوسرا راستہ وہ نجی کمپنیاں ہیں جو ادویات درآمد کر کے پاکستان میں تقسیم کرتی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں کووڈ 19 کے حوالے سے قائم نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے سربراہ اسد عمر نے کہا ہے کہ پاکستان میں صوبائی حکومتیں اور نجی ادارے ڈریپ کی منظوری کے ساتھ کورونا کی ویکسین خریدنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ تاہم پنجاب کے محکمہ صحت کے مطابق نجی اداروں کے لیے بھی انتہائی مشکل ہو گا کہ وہ جلد کرونا کی ویکسین پاکستان میں لا سکیں گے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ اس وقت ویکسین تیار کرنے والی تمام تر کمپنیوں کے معاہدے حکومتوں کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ ان کی ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت اتنی ہے کہ حکومتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو پورا کرنے ہی میں ان کو کئی ماہ لگ جائیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نجی کمپنیاں جب کوئی ویکسین لاتی ہیں تو عموماً اسے مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں جس کے بعد وہ میڈیکل سٹورز میں کاؤنٹر پر دستیاب ہوتی ہے۔ ایسے میں صارفین کو وہ ویکسین خریدنا پڑے گی۔ لیکن پنجاب کے محکمہ ہیلتھ کے مطابق کوئی بھی حکومت نہیں چاہے گی کہ کسی فرد کو ویکسین خرید کر لگانا پڑے۔ اس لیے کاؤنٹر پر ویکسین کی دستیابی کے مستقبل قریب میں کوئی امکانات نہیں ہیں۔
اس صورت میں وفاقی یا صوبائی حکومت ان نجی کمپنیوں کے ذریعے ویکسین خریدنے کا معاہدہ کر سکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا صوبے ویکسین خرید پائیں گے؟ صوبائی حکومتوں کو اپنے طور پر بھی ویکسین خریدنے کی اجازت دی گئی ہے تاہم موجودہ صورتحال میں اس کے زیادہ امکانات نظر نہیں آتے۔ محمکہ صحت پنجاب نے بتایا کہ این سی او سی کے حالیہ اعلان سے قبل پنجاب حکومت ویکسین کی خریداری اور فراہمی کے لیے صرف اور صرف وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ’پنجاب حکومت نے اپنے طور پر کسی کمپنی سے کوئی رابطہ وغیرہ قائم نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی حکومت اب بھی وفاق ہی پر ویکسین کی فراہمی کے لیے انحصار کرے گی۔ یاد رہے کہ آبادی کے لحاظ سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور ملک کا سب سے بڑا کورونا ویکسینیشن پروگرام پنجاب ہی میں چلایا جائے گا۔
دوسری طرف سندھ کی صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا پیچیحو نے بتایا کہ ان کی حکومت از خود ویکسین خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے ہی زیادہ تر ممالک سے بہت پیچھے ہے جو کہ پریشان کن امر ہے۔
کئی ممالک نے ویکسین پری بک بھی کر رکھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان خریدنے والوں کی فہرست میں مزید نیچے چلا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد از جلد ویکسین حاصل کرنے کے کوشش کر رہی ہیں تاہم اس کو آنے میں مارچ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب ڈریپ نے پاکستان کے لیے دو ہی کمپنیوں کی ویکسین کی منظوری دی ہے تو سندھ یہ ویکسین کیسے اور کس سے حاصل کرے گا؟ ڈاکٹر عذرا فضل پیچیحو کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لیے ایک نجی کمپنی سے ویکسین درآمد کرنے کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں اور فی الحال ان کا ہدف ایسٹرا زینیکا کی ویکسین ہے۔
لیکن سوال پھر وہی ہے کہ سب سے بڑا صوبہ پنجاب کتنا تیار ہے؟ پنجاب کے محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے سیکریٹری محمد عثمان یونس نے بتایا کہ این سی او سی کے حالیہ اعلان کے بعد صوبائی حکومت اس حوالے سے اقدامات پر غور کر رہی تھی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ تر اقدامات وفاق کی ہدایات اور پالیسی کے مطابق کیے جائیں گے اور وفاق کی طرف سے لوگوں کو ویکسین لگانے کا جو پروگرام ترتیب دیا گیا ہے اس پر پنجاب میں بھی عملدرآمد کیا جائے گا۔
’اس قسم کے پروگرام کے لیے ضروری ہے کہ ایک مرکزی حکمتِ عملی پر کام کیا جائے تاکہ پورے ملک میں یکساں طریقے سے لوگوں کو ویکسین لگائی جا سکے۔‘
دوسری طرف ڈاکٹر عطاالرحمٰن کے مطابق پاکستان کی زیادہ امیدیں دوست ملک چین سے جڑی ہیں۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ سائنو فارم کی ویکسین منظوری کے بعد حکومتی سطح پر اسلام آباد میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ذریعے پاکستانی حکومت کو فراہم کی جائے گی۔ ڈاکٹر عطا کے مطابق ’دوست ملک ہونے کے ناطے پاکستان چین کے لیے ان ممالک میں شامل ہے جنھیں یہ ویکسین ترجیحی بنیادوں پر مہیا کی جائے گی۔‘ انھوں نے بتایا کہ سائنو فارم 79 فیصد مؤثر ہے جس کے ٹرائلز اس وقت بھی پاکستان میں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ویکسین متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور دیگر ممالک میں منظوری کے بعد لوگوں کو دی جا رہی ہے اور اس کے محفوظ ہونے کے حوالے سے اعداد و شمار موجود ہیں۔
ڈاکٹر عطاالرحمٰن کے مطابق ویکسین کی خریداری حکومت کا کام ہے اس لیے وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ سائنو فارم سے پاکستان کتنی تعداد میں ویکسین خریدے گا اور چینی کمپنی کتنی جلدی یہ ویکسین تیار کر کے پاکستان کو دے پائے گی۔ ’امید یہی کی جا رہی ہے کہ مارچ میں سائنو فارم کی ویکسین پاکستان کو مل پائے گی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button