میرٹ پر جج لگانے کے لئے فائز عیسیٰ کا جسٹس بندیال کو خط

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی علامت قرار دئیے جانے والے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تقرریوں کے موجودہ طریقہ کار پر اعتراض اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط میں لکھا ہے کہ ججوں کو سنیارٹی، میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر تعینات کیا جاتا ہے لیکن ان اصولوں کے برعکس جونیئر ججوں کو تعینات کیا جارہا ہے جو کہ افسوسناک ہے اور اس پالیسی کو ترک کیا جانا چاہئے۔

اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز نے لکھا ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت جوڈیشل کمیشن کے ممبران نے بھی کئی بار چیفف جسٹس کو باور کروایا یے کہ ججز کی تقرری میں سنیارٹی، میرٹ اور قابلیت کو دیکھنا ہوتا ہے، لیکن حال ہی میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی بجائے ایک جونیئر جج کو تعینات کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ماضی میں یہ کہہ کر سپریم کورٹ میں جونیئر جج تعینات کیے کہ سینئر ججز خود سپریم کورٹ نہیں آنا چاہتے، مگر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور سینئر ججز نے ثاقب نثار کے موقف کی تردید کی، انکا کہنا تھا کہ سینئر ججز کے سپریم کورٹ میں خود تعیناتی نہ لینے کی بات کر کے دراصل میاں ثاقب نثار نے مکاری کا مظاہرہ کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی سپریم کورٹ میں ججز تعینات کرتے وقت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور کئی سینئر ججز کو نظر انداز کیا، انہوں نے لکھا کہ میں اپنے خط کی کاپی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور گلزار احمد کو بھی بھیج رہا ہوں، انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ بطور ممبر جوڈیشل کمیشن سابق جج سپریم کورٹ جسٹس مقبول باقر کی رائے کو بھی نظرانداز کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم کیلئے ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی لیکن اس جانب سے آج تک کوئی رائے نہیں آئی، انہوں نے مذید کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ان کیمرہ نہیں ہونا چاہیے اور ججز کی تقرری کیلئے اجلاس سے متعلق عوام کو علم ہونا چاہیے۔ جسٹس فائز عیسی نے رجسٹرار سپریم کورٹ جواد پال کے سیکرٹری جوڈیشل کمیشن بنائے جانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ ایک سرکاری ملازم ہے جس کا عمران خان دور میں وزیر اعظم ہاوس سے تقرر ہوا، اس نے سابق وزیر اعظم اور انکی جماعت کے مقدمات فوری طور پر مقرر کروائے، لیکن جو مقدمات عمران خان یا تحریک انصاف کیخلاف دائر ہوئے وہ جان بوجھ کر مقرر نہ کیے گئے، انکا کہنا تھا کہ بھاڑے پر لیے گئے رجسٹرار سپریم کورٹ کے تقرر نے قابل افسران کی اہلیت پر سوال اٹھایا ہے۔

دوسری جانب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ایک رکن نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے درخواست کی ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے تقرر کا معیار مرتب کرنے اور اسے حتمی شکل دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جے سی پی رولز کمیٹی کی تشکیل نو کی جائے۔ جے سی پی کے رکن اختر حسین، جو پاکستان بار کونسل کی بھی نمائندگی کرتے ہیں، کی جانب سے چیف جسٹس بندیال کو تین صفحات پر مشتمل خط لکھا گیا ہے۔ خط میں تجویز کیا گیا ہے کہ رولز کمیٹی کی سربراہی سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں۔ اختر حسین نے کہا کہ اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کے تقرر کے لیے کچھ معروضی معیارات طے کیے جائیں جس میں سنیارٹی کے اصول پر زور دیا جائے۔ خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں تقرر کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے 12 اور لاہور ہائی کورٹ کے 5 سینئر ججوں سے تفصیلات طلب کی گئیں جس سے بار کے اراکین اور ہائی کورٹ کے ججز میں ہلچل مچ گئی ہے کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ سینیارٹی کے اصول کو پھر سے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

مائیک ٹائسن نے دوران پرواز مخالف کو ناک آؤٹ کردیا

خط میں اختر حسین نے بتایا کہ وکلا کی ریگولیٹری باڈی پاکستان بار کونسل نے حال ہی میں جے سی پی میں تمام صوبائی اور اسلام آباد بار کونسلوں کے نامزد افراد کا اجلاس بلایا تھا۔ ان کے مطابق اجلاس میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے سامنے یہ مطالبہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا کہ جے سی پی رولز 2010 اور ترقی کے معیار میں ترامیم کرنے سے پہلے اعلیٰ عدالتوں میں کوئی نئی ترقی نہ کی جائے۔ خط میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کے تقرر میں شفافیت کا معاملہ 18ویں اور 19ویں آئینی ترامیم کے بعد سے نہ صرف بار کی سطح پر بلکہ دانشوروں، میڈیا اور بڑے پیمانے پر عوام کے سامنے بھی زیر بحث ہے لہذا اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں سپریم کورٹ میں تمام تقرریاں میرٹ اور سینیارٹی کی بنیاد پر ہوں۔

Related Articles

Back to top button