IMF نے قرض دیکر ملکی تجارت ریگولیٹ کرنا شروع کر دی

عالمی مالیاتی ادارے نے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد پاکستان کے لئے ایک ارب اور17 کروڑ ڈالرز قرض کی منظوری تو دے دی ہے لیکن اس نے پاکستانی تجارت کو بھی ریگولیٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور مزید مطالبات بھی کررہا ہے۔ ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت قرض حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے کئے گئے مشکل وعدے پورے کر پائے گی؟

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی اگلی قسط دینے کے لئے جو شرائط عائد کی ہیں وہ اس لیے انوکھی ہیں کسی اور ملک کو ان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انکا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ماضی میں کسی ملک کے لیے قرض پروگرام کی منظوری، قرضے کی قسط کے اجرا یا جائزہ مکمل کرنے کے لیے برآمدات و درآمدات پر پابندی لگانے یا اسے ہٹانے کی کوئی شرط نہیں لگائی، لیکن پاکستان کے معاملے میں ایسا کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ پرتعیش اشیا کی درآمد پر عائد پابندی ہٹانا ان کی ’بین الاقوامی مجبوری‘ تھی کیونکہ آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ وہ یہ واضح کریں کہ حکومت ان اشیا کی درآمد پر پابندی کب تک ہٹا رہی ہے، جو اب ہٹا دی گئی ہے۔

اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ کیا آئی ایم ایف بطور انٹرنیشنل فنانشل انسٹیٹیوشن کسی ممبر ملک کو قرضہ دیتے وقت اس کی درآمدات یا برآمدات کو ریگولیٹ کرنے کا حق رکھتا ہے؟ یا پھر آئی ایم ایف کا چارٹر اس کی مینجمنٹ کو کسی رکن ملک کی درآمدات کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیتا ہے؟ پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا اور اس ادارے میں پاکستان کی سرمایہ کاری دو ارب 64 کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ آئی ایم ایف کا پاکستان کے لیے یہ 19واں قرض پروگرام ہے، تاہم ادارے کے دستیاب ڈیٹا کے مطابق 1984 سے اب تک پاکستان، آئی ایم ایف سے 21 ارب 37 کروڑ ڈالر قرضہ لے چکا ہے اور اس عرصے میں پاکستان نے 16 ارب 60 کروڑ ڈالر اصل زر جبکہ دو ارب 40 کروڑ ڈالر سے زائد سود کی مد میں آئی ایم ایف کو واپس کیے۔ 2026 تک پاکستان کو آئی ایم ایف کو اصل زر اور سود کی مد میں مزید پانچ ارب 59 کروڑ ڈالر واپس کرنے ہوں گے۔

سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ دراصل آئی ایم ایف بورڈ آف ڈائریکٹرز میں انہی ممالک کے نمائندے بیٹھے ہیں جن کی برآمدات کو پاکستان میں آنے سے روکا گیا، جیسا کہ یورپی یونین نے پرتعیش اشیا کی درآمدات پر پابندی ہٹانے کا تقاضا کیا ہے، جو ان کی برآمدات کی بہت بڑی منڈی ہے۔ وقار مسعود کہتے ہیں کہ اس دباؤ کی وجہ سے پرتعیش اشیا کی درآمد پر عائد پابندی ہٹا لی گئی تاہم اس کے باوجود ایل سی کھولنے پر پابندی ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان اس معاملے کو دیکھ رہا ہے کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن نسبتاً خستہ حال ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ اس میں استحکام آ جائے تو پھر درآمدات پہ عائد تمام پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔‘

یاد رہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق درآمدات و برآمدات کا تعلق ورلڈ ٹریڈ آگنائزیشن سے ہے، اگر کسی ملک کو پاکستان کی طرف سے پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی سے شکایت ہے تو وہ اپنا مقدمہ ڈبلیو ٹی میں لے جا سکتا ہے، تاہم اگر ڈبلیو ٹی او کو پاکستان کی طرف سے پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندی پر کوئی اعتراض نہیں تو آئی ایم ایف پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ فیزیبلیٹی پروگرام کی بحالی کے لیے یہ شرط کیوں کر عائد کر سکتا ہے۔

چین لکی آبنائے تائیوان میں امریکی جنگی بحری جہازوں پر گہری نظر

سابق مشیر خزانہ سندھ اور اقتصادی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ دراصل آئی ایم ایف ایک بینک ہے جو مغربی ممالک کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے، حالانکہ حکومت نے پرتعیش اشیا کی درآمد پر عائد پابندی ہٹانے کے حوالے سے اپنے تحفظات آئی ایم ایف کے سامنے پیش کیے کہ پابندی ہٹائیں گے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جائے گا، مگر آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ آپ درآمدات برقرار رکھیں، اگر خسارہ ہوا تو ہم قرضہ دیں گے۔ قیصر بنگالی کا مزید کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے حکمران آتے رہے ہیں جو پاکستان کے لوگوں کی بجائے بڑی طاقتوں کے مفادات کی نمائندگی کرتے تھے اور جان بوجھ کر انہوں نے ایسی معاشی پالیسی بنائی، جس کے نتیجے میں پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ انکے مطابق آئی ایم ایف کے چارٹر کے مطابق یہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہے، جس کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جس ملک کو کوٹے سے زیادہ قرضہ دیا جا رہا ہے، وہ قرضے کی رقم مع سود واپس کر پائے گا یا نہیں، اگر اس کی معیشت قرضہ واپس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو آئی ایم ایف ریونیو بڑھانے اور غیرضروری اخراجات کم کرنے، تجارتی و کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کے لیے برآمدات بڑھانے سمیت بعض شرائط عائد کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا چارٹر ایسی شرائط کو معاشی اصلاحات کا نام دیتا ہے۔

لیکن معیشت کو رپورٹ کرنے والے سینئر صحافی سید مہتاب حیدر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کسی دوسرے ملک کو کبھی اس طرح سے نہیں کہا گیا کہ آپ مخصوص مصنوعات کی درآمد بند کریں یا اس پر عائد پابندی ہٹا دیں، ٹریڈ لبرلائزیشن کا تقاضا تو کیا جاتا ہے مگر ان کی تجارت کو کبھی ریگولیٹ نہیں کیا۔ مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر آئی ایم ایف کا اختیار نہیں کہ وہ قرضہ مانگنے والے ملک کی تجارت کو ریگولیٹ کرے، لیکن آئی ایم ایف کے چارٹر میں یہ ضرور شامل ہے کہ ٹریڈ کو لبرلائز کیا جائے۔ بنیادی طور پر یہ مینڈیٹ ڈبلیو ٹی او کا ہے لیکن تمام بین الاقوامی مالیاتی ادارے مل کر کام کرتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button