عمران کی کس شرط نے قاف لیگ سے مذاکرات ناکام کر دیے؟

تحریک انصاف اور قاف لیگی قیادت کے مابین مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پرویز الہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے رکھی گئی

یہ شرط تھی کہ چوہدری برادران اپنی جماعت ختم کر کے حکمران جماعت میں ضم کر دیں

۔ تاہم چوہدری برادران نے اس شرط کو بچگانہ قرار دے کر سختی سے رد کردیا اور اپوزیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد چودھری شجاعت نے اسلام آباد جاکر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے معاملات طے کر لیے۔ اب یہ اطلاعات ہیں کہ اپوزیشن کی قیادت چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب بنانے پر آمادہ ہو چکی ہے جس کا اعلان اگلے چند روز میں کر دیا جائے گا۔

مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء سینیٹر کامل علی آغا نے پی ٹی آئی سے مذاکرات ناکام ہو جانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومتی ٹیم نے قاف۔لیگ کی قیادت کو وزارت اعلیٰ کی مشروط پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ وزیراعظم کی خواہش کے مطابق اپنی جماعت تحریک انصاف میں ضم کر دیں۔ تاہم جواب میں چوہدری برادران نے واضح کیا تھا کہ ان کے ساتھ غیر سنجیدہ اور بچگانہ گفتگو نہ کی جائے اور دوبارہ اس طرح کی واحیات تجویز پیش نہ کی جائے۔ کامل علی آغا کا کہنا تھا کے حکومت کی موجودہ مشکلات کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کے کرتا دھرتا بولتے پہلے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہوں یا ان کے وزراء ہوں، وہ بولنے سے پہلے تولنا شاید گناہ سمجھتے ہیں لہذا آج پوری حکومت دوراہے پر کھڑی ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک روز پہلے پارلیمنٹ کے باہر دس لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کامل علی آغا نے کہا کہ یہ ایک نہایت غیر دانشمندانہ اور غیر سنجیدہ فیصلہ ہے جس کی چودھری شجاعت حسین نے بھی مخالفت کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور وزیراعظم کو وقار کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ لیڈرشپ کا انداز گفتگو باوقار اور میچور ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جتنی ٹیمیں ہمارے پاس مذاکرات کے لیے آئی ہیں وہ ہمیں بچوں کی طرح ٹریٹ کرتی ہیں، انکے پاس کوئی ٹھوس تجویز نہیں ہوتی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیں بچوں کی طرح کہانیاں سنا کر ساتھ چلاتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ابھی تک مذاکرات میں سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی، اور وزارت اعلی کی تجویز بھی اس شرط سے مشروط کی گئی کہ چوہدری برادران قاف لیگ کو تحریک انصاف میں ضم کر دیں۔انہوں نے کہا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد کے بعد بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے لیکن سنجیدہ مذاکرات کرنے کی بجائے اب بھی مذاق میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا کہ جلدی میں کیے گئے فیصلے سے سسٹم کیلئے نقصان ہو سکتا ہے، ہم جو فیصلہ کریں گے وہ سسٹم کے فائدے کے لیے ہوگا، ہم چاہتے ہیں نظام بھی چلے اور امن بھی رہے، ہم چاہتے ہیں فیصلے پارلیمان کے اندر ہوں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ قاف لیگ کے اپوزیشن کے ساتھ سارے معاملات طے پا چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے دعوے صرف قیاس آرائیاں ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن تو اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ قاف لیگ کے بغیر عمران خان کی حکومت ختم کرنا ناممکن ہے لیکن شاید وزیراعظم ابھی تک اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں اتحادی جماعتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ طارق بشیر چیمہ نے بتایا کہ اپوزیشن نے ہم سے کہا کہ ہم پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے ہیں، لیکن ہم نے کہا کہ وزیراعلیٰ بننا ق لیگ کی شرط نہیں ہے، یاں ق لیگ کو یہ ضرور لگتا ہے کہ اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ تاہم اب یہ اطلاعات ہیں کہ عمران کی رخصتی کے بعد موجودہ اسمبلیاں اپنی بقیہ مدت پوری کریں گی۔

What condition Imran made negotiations with Qaf League fail?

Related Articles

Back to top button