آئی ایم ایف پاکستان کو کس جرم کی سزا دے رہا ہے؟

آئی ایم ایف کی جانب سے سخت ترین شرائط پر ایک ارب ڈالرز کی قسط منظور ہونے کے باوجود عالمی معیشت کا نگہان ادارہ پاکستان سے مزید سخت معاشی پالیسیاں بنانے کا مطالبہ کرر ہا ہے جس سے معاشی صورتحال اور خراب ہونے اور مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر لگائے گئے نئے ٹیکسز کا خمیازہ حکومت کو عوامی نفرت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انکا یہ بھی دعوی یے کہ آئی ایم ایف اتنی ذیادہ سختی امریکی حکومت کے ایما پر کر رہا ہے تاکہ پاکستان کو افغان طالبان کا ساتھ دینے کی سزا دی جا سکے۔

سنیئر صحافی نصرت جاوید اپنے تازہ تجزیے میں کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستانی معیشت کا جو تجزیہ پیش کیا ہے اس میں موجودہ معاشی ٹیم کو باور کروایا گیا ہے کہ 2019 میں حفیظ شیخ کے ستھ طے پانے والے تمام نکات پر پاکستان کو عمل کرنا ہوگا ورنہ آئی ایم ایف پروگرام روک دیا جائے گا۔ بقول نصرت، آئی ایم ایف دراصل امریکی ایما پر پاکستان کے ساتھ قدرے سختی سے پیش آرہا ہے کیونکہ امریکہ کو افغان جنگ میں جس شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔

نصرت یاد دلواتے ہیں کہ وزارت خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے ساتھ تین سالہ معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ سے مہنگائی کی ناقابل برداشت لہر آئی اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین اب پارلیمان کا رخ کرنے سے گھبراتے رہے۔ ان میں سے چند ممبران اسمبلی نے اُکتا کر بالآخر حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں ووٹ ڈال کر انہیں سینٹ بھجوا دیا۔ حفیظ شیخ کو اس شکست کی وجہ سے فارغ کرنا پڑا جس کے بعد شوکت ترین نے وزارت سنبھال لی۔

نصرت کہتے ہیں کہ مشیر خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی شوکت ترین نے پے در پے ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے ہمارے معاشی جمود کا واحد ذمہ دار حفیظ شیخ کو ٹھہرایا۔ وہ مصر رہے کہ آئی ایم ایف کے تشخیص کردہ نسخے پر عمل جاری رہا تو وطن عزیز میں کاروبار چلانا ناممکن ہو جائے گا۔ رواں سال کا بجٹ تیار کرتے وقت اور اسے قومی اسمبلی سے منظوری کے لئے پیش کرتے ہوئے بھی شوکت ترین اپنے اس دعویٰ پر قائم سنائی دئیے۔ وہ بارہا اعلان کرتے رہے کہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔

مگر چند ہی ماہ بعد شوکت ترین کو ’’آنے والی تھاں‘‘ پر لوٹنا پڑا اور آئی ایم ایف کے اصرار پر روزمرہّ ضرورت کی تقریباً ہر شئے پر 17فی صد سیلز ٹیکس لگانا پڑا۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک آف کو کامل خودمختاری بھی فراہم کردی گئی۔ لیکن ان تمام تر اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف مطمئن نظر نہیں آرہا۔پاکستان کو ایک ارب ڈالرز کی قسط فراہم کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کا جو منفی تجزیہ کیا ہے اسے خفیہ نہیں رکھا گیا۔ یہ تجزیہ اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا جاری کردہ تجزیہ ایک حوالے سے ہماری معیشت کا معروضی جائزہ نہیں بلکہ شوکت ترین کے خلاف چارج شیٹ ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق شوکت ترین نے رواں مالی سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے ایسے کئی وعدوں سے انحراف کیا جو سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے تحریری صورت میں کئے تھے لیکن آئی ایم ایف انہیں درگزر کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔

اس نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو ہر صورت اس معاہدہ کی ہر شق پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا جو ڈاکٹر حفیظ شیخ کی بھرپور معاونت سے 2019ء میں تیار ہوا تھا۔ ماضی میں دو مرتبہ بطور وزیر خزانہ ناکام ہونے والے شوکت ترین اہنے بھولپن کی وجہ سے اس گمان میں مبتلا رہے کہ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ انہیں حفیظ شیخ کے طے کردہ معاہدے سے روگردانی کی اجازت دے گا۔ تاہم ایسا نہیں ہو پایا۔

بقول نصرت جاوید ہم میں سے اکثر لوگ اس حقیقت کو برملا تسلیم نہیں کرتے کہ آئی ایم ایف فقط ایک بینک ہی نہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اہم ترین ہتھیار بھی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک چند معاملات پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کریں تو اس کے ذریعے ہمیں سیدھی راہ پر لوٹنے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اس شبے میں مبتلا ہوں کہ شوکت ترین کو یہ گماں لاحق رہا ہو گا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے لئے ہماری جانب سے فراہم کردہ تعاون کو ذہن میں ر کھتے ہوئے آئی ایم ایف کو ہتھ ہولا رکھنے کو مائل کرے گا۔

وہ یہ اندازہ ہی نہ لگا پائے کہ بائیڈن انتظامیہ کابل ایئرپورٹ سے نمودار ہوئے مناظر کی وجہ سے سخت ترین تنقید کی زد میں ہے۔امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کی تقریباً ہر معاملے پر شدید مخالف ہونے کے باوجود پاکستان ہی کو امریکی افواج کے انخلاء کے دوران درپیش آئی ذلت و رسوائی کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ شوکت ترین نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران اس پہلو کی جانب ٹھوس انداز میں توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ موصوف نے نہایت بے بسی سے اعتراف کیا کہ جب وہ پیپلزپارٹی حکومت کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہے تھے تو اس کا رویہ دوستانہ اور ہمدردانہ تھا لیکن اب کی بار سختی برتی جارہی ہے۔ قصہ مختصر امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات میں خرابی کی وجہ سے آئی ایم ایف ہمیں تنگ کر رہا ہے جو کہ وزیراعظم عمران خان کی بڑی ناکامی ہے۔

Related Articles

Back to top button