صدر سے چپڑاسی تک سب لوگ کس خوف کا شکار ہیں؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ انکا کہنا ہے کہ خوشی، اطمینان اور ترقی ہمیشہ سٹیبل stability سے جنم لیتی ہیں اور پاکستان میں بدقسمتی سے استحکام نہیں ہے۔ آپ پورے ملک میں کوئی ایک شخص بتا دیں جس کو یہ یقین ہو وہ اگلی صبح اٹھے گا تو اسکی جاب، اس کا خاندان اور اس کے اثاثے ویسے ہی محفوظ ہوں گے جیسے کہ گزشتہ روز تھے۔ پاکستان میں صدر سے لے کر چپڑاسی تک ہر شخص عدم استحکام کے ساتھ سوتا اور عدم استحکام میں آنکھ کھولتا ہے۔ جب سٹیبلیٹی نہ ہو تو پھر انسان صرف ہنستا ہے خوش نہیں ہوتا، وہ امیر ہوتا ہے لیکن مطمئن نہیں ہوتا اور وہ صرف گریڈ اور ایوارڈز لیتا ہے ترقی نہیں کرتا۔

پنجاب : پی ٹی آئی اور ق لیگ کا بجٹ ،ضمنی الیکشن کیلئے لائحہ عمل طے

اپنے تازہ تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ہم اگر ٹھنڈے دل اور دماغ سے سوچیں تو فوراً مان لیں گے کہ ہمارے ملک کے تین سیریس مسئلے ہیں۔ ہم نے 75 برسوں میں کوئی بھی چیز فکس نہیں کی۔ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے ہمیں ہفتے میں کتنی چھٹیاں چاہئیں اور یہ کس دن ہونی چاہئیں‘ ہم سات مرتبہ چھٹیاں تبدیل کر چکے ہیں‘ 1977 تک اتوار کو چھٹی ہوتی تھی‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے مولویوں کے دباؤ میں جمعہ کی چھٹی کر دی‘ اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں منجمد ہو گئیں‘ پاکستان میں جمعرات کو آدھا دن کام ہوتا تھا‘ جمعہ کو چھٹی ہوتی تھی‘ ہم ہفتے کو دفتر اور فیکٹریاں کھولتے تھے اور ہفتے اور اتوار کو مغربی دنیا میں چھٹی ہوتی تھی یوں ہفتے کے سات دن سمٹ کر تین رہ گئے اور مغربی دنیا کے ساتھ کاروبار تقریباً ٹھپ ہو گیا‘ نواز شریف اقتدار میں آئے اور انھوں نے 1997 میں ہفتہ وار چھٹی اتوار کر دی‘ جنرل پرویز مشرف نے لوڈشیڈنگ سے بچنے کے لیے ہفتے میں دو چھٹیاں کر دیں۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اس کے بعد پیپلز پارٹی آئی اور نومبر 2010 میں واپس ایک چھٹی کر دی‘ لوڈ شیڈنگ بڑھی تو سال بعد اکتوبر 2011 میں پھر دو چھٹیاں کر دیں‘ شہباز شریف وزیراعظم بنے تو 22 اپریل 2022 کو ایک چھٹی کر دی اور پھر پٹرول اوربجلی بچانے کے لیے 7 جون کو ایک بار پھر دوسری چھٹی بحال کر دی‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ہم آج تک چھٹی کا فیصلہ بھی نہیں کر سکے جب کہ یورپ نے سو سال پہلے اڑھائی چھٹیوں کا فیصلہ کر لیا تھا‘ یورپ میں دفتر‘ شاپنگ سینٹر اور دکانیں بھی شام چھ بجے بند ہوجاتی ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی شان دار ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ اس سے پٹرول‘ بجلی اور گیس کی بچت ہوتی ہے۔
لوگ اگر ذاتی گاڑیوں پر سفر کریں گے تو زیادہ پٹرول خرچ ہو گا‘ اگر ہفتے میں سات دن مارکیٹیں کھلیں گی اور رات بارہ بجے تک شاپنگ چلتی رہے گی تو بجلی تین گنا استعمال ہو گی اور یوں امپورٹ بل بڑھ جائے گا‘ امپورٹ بل بڑھنے سے ایکسپورٹس اور امپورٹس کا توازن خراب ہو جائے گا اور یوں ملک سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کر جائے گا۔ لہٰذا یورپ نے پبلک ٹرانسپورٹ بنا کر‘ مارکیٹیں چھ بجے بند کر کے اور ہفتے میں اڑھائی چھٹیاں کر کے اپنے آپ کو توانائی کے بحران سے بچالیا جب کہ ہم آج تک چھٹیوں‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور مارکیٹوں اور دفتروں کے اوقات کا فیصلہ نہیں کر سکے لہٰذا ہمارا بحران بڑھتا جا رہا ہے۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک گرم ملک بھی ہے اور ہم پٹرول اور گیس بھی امپورٹ کرتے ہیں چنانچہ ہم اگر گرمیوں میں دفتروں میں دن دو بجے چھٹی کر دیں‘ مارکیٹیں چھ بجے بند کر دیں اور ہفتے میں دو چھٹیاں کر دیں تو ہم لوڈ شیڈنگ سے بھی بچ جائیں گے اور ہمارا امپورٹ بل بھی نیچے آ جائے گا‘ دوسرا ہم اگر کڑوا گھونٹ بھر کر ایک ہی بار پورے ملک میں میٹروز بچھا دیں تو اس سے بھی پٹرول کی بچت ہو گی اگر دنیا یہ کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں کرتے؟

جاوید چودھری کے بقول ہمارا دوسرا مسئلہ ہم اینٹی پراگریس اور اینٹی بزنس ہیں‘ حکومت اگر آج کالاباغ ڈیم کا نام لے لے تو لوگ سڑکیں بند کر دیں گے‘ پی کے ایل آئی دسمبر 2017 میں مکمل ہونا تھا لیکن یہ آج تک تنازع کا شکار ہے‘ حنیف عباسی نے 2018میں راولپنڈی میں یورالوجی ہسپتال بنایا تھا‘ یہ چار سال بند رہا‘ کروڑوں روپے کی مشینری سڑک پر پڑی پڑی خراب ہو گئی‘ شہباز شریف نے تین شہروں میں میٹروز بنوائیں‘ وہ آج تک مقدمے بھگت رہے ہیں‘ شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی کا معاہدہ کیا‘ وہ آج تک ایک عدالت سے دوسری عدالت میں دھکے کھا رہے ہیں‘ پراگریس اور پرفارمنس احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے بیوروکریٹس کے گلے کا پھندا بن گئی اور مجھے یقین ہے آج بھی اگر حکومت ویلفیئر کا کوئی پروجیکٹ شروع کر دے تو اس کی جان نہیں چھوٹے گی‘ یہ لوگ باقی زندگی جیلوں میں گزاریں گے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ صرف بیوروکریسی اور حکومت تک محدود نہیں بلکہ ہم انفرادی سطح پر بھی ترقی کرنے والے شخص کے خلاف ہیں‘ ہم آج بھی دوسروں کی نئی گاڑیوں پر لکیریں لگا دیتے ہیں اورنئے گھروں کے شیشے توڑ دیتے ہیں‘ یہ رویہ بھی برداشت ہو جاتا اگر ہم اینٹی پراگریس کے ساتھ ساتھ من حیث القوم اینٹی بزنس نہ ہوتے‘ آپ ملک میں بزنس شروع کر کے دیکھ لیں حکومت سمیت پورا سسٹم غول بن کر آپ پر ٹوٹ پڑے گا‘ انسان کو صرف ایف بی آر سے نمٹنے کے لیے دو زندگیاں چاہییں جب کہ آپ یورپ‘ امریکا اور کینیڈا میں چار پانچ لوگوں کو جاب دے دیں یہ ملک آپ کو شہریت دے دیں گے اور ادھر پاکستان میں تین تین ہزار جابز پیدا کرنے والے ذلیل ہوتے رہتے ہیں‘ میرے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ اینگرو کے چیئرمین حسین داؤد اس اینٹی بزنس اپروچ کی وجہ سے پاکستان سے نقل مکانی کرنے اور پاکستانی شہریت بھی چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔ پاکستان کے چار ہزار بڑے بزنس مین ملک سے باہر ٹھکانے بنا چکے ہیں‘ کیوں؟ آپ نے کبھی غور کیا‘ وجہ ہماری اینٹی بزنس اپروچ ہے‘ حکومت بزنس بند کرانے اور لوگوں کو جاب لیس کرانے کے لیے پورا زور لگا دیتی ہے چنانچہ حالات آپ کے سامنے ہیں۔

جاوید چوہدری کے مطابق ہمارا تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان ٹرینڈ یا غیر تربیت یافتہ قوم ہیں‘ حال یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کے ڈگری ہولڈرز بھی درخواست نہیں لکھ سکتے‘ وہ لیکچر نہیں دے سکتے‘ ڈاکٹر کو ہاتھ ملانا اور بات کرنا نہیں آتا‘ انجینئرز جاب تلاش کر رہے ہوتے ہیں‘ ڈرائیور کو گاڑی چلانا‘ پلمبر کو جوڑ لگانا‘ کک کو کھانا پکانا اور پینٹر کو پینٹ کرنا نہیں آتا‘ پولیس اہلکار بھاگ دوڑ نہیں کرسکتے‘ گولی چلانے والا نشانہ نہیں لے سکتا‘ مستری کو اینٹ لگانا نہیں آتی اور آپ جب تک سارے کام چھوڑ کر پاس نہ بیٹھ جائیں پورے ملک میں کوئی شخص کام نہیں کرتا‘ یہ کیا ہے؟ یہ ٹریننگ کی کمی ہے‘ ہم آج تک اپنی قوم کی ٹریننگ نہیں کر سکے۔ ہم ہمیشہ بولتے ہوئے لفظ تعلیم کے ساتھ تربیت لگاتے ہیں لیکن تربیت کہاں ہے؟ کیا پاکستان کا کوئی اسکول‘ کالج یا یونیورسٹی کسی اسٹوڈنٹ کو تربیت دیتی ہے اور کیا ہم نے آج تک کسی استاد کو بھی ٹریننگ دی؟ اور اگر دی ہے تو اس کا معیار کیا تھا؟ لہٰذا پورا ملک صدر سے چپڑاسی تک ٹریننگ اور سکل skill کی کمی کا شکار ہے اور یہ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری ہے۔ معاشرے میں جب تک استحکام نہ ہو‘ پالیسیاں فکسڈ نہ ہوں‘ سوسائٹی پراگریس اور بزنس فرینڈلی نہ ہو اور ہر شہری ہنرمند اور ٹرینڈ نہ ہو سوسائٹی میں اس وقت تک امن‘ سکون اور خوشی نہیں آتی لہٰذا ہمیں ان پر توجہ دینا ہو گی۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ عدم استحکام میں تو پرندے انڈے نہیں دیتے، جب کہ ہم معاشرہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ کیسے چلے گا؟ لہٰذا خدا کے لیے پورے ملک کے لیے سکل کو لازم قرار دے دیں‘ ملک کو پراگریس اور بزنس فرینڈلی بنائیں اور پورے ملک میں تمام پالیسیاں 25 سال کے لیے فکس کر دیں‘ حکومتیں آئیں یا جائیں لیکن پالیسی نہیں بدلے گی‘ معاشرے میں استحکام آ جائے گا اور یوں خوشی اور اطمینان کا لیول بڑھ جائے گا ورنہ ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار مار کر ختم ہو جائیں گے۔

Related Articles

Back to top button