الطاف حسین نے ڈی جی رینجرز کو پکڑنے کا حکم کیوں دیا؟

لندن پولیس نے الطاف حسین کے خلاف جاری مقدمے کی سماعت کے دوران برطانوی عدالت کو بتایا ہے کہ اس نے ایم کیو ایم سربراہ کی لندن میں رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران ان کے اس خطاب کی ریکارڈنگ اور نوٹس حاصل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ورکرز کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سندھ رینجرز کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کر کے ڈی جی کو قابو کر لیں اور اسے گدھے پر بٹھا کر شہر میں گھمائیں۔

اسکے علاوہ الطاف حسین نے یہ ہدایات بھی دیں کہ تین نجی ٹی ویژن چینلز، آے آر وائی، جیو، اور سما کے دفاتر پر حملہ کر کے ان کی نشریات بند کر دی جائیں۔ 7 فروری کے روز برطانوی کراؤن پراسیکیوشن نے بارہ رکنی جیوری کے سامنے الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی وہ تقریر بھی چلائی جس کی بنیاد پر ان کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں برٹش ٹیررازم ایکٹ 2006 کے تحت مقدمہ دائر چل رہا ہے۔ یہ وہی تقریر ہے جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے الطاف حسین کو پاکستانی میڈیا پر دکھانے اور سنانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

کیس کی سماعت کے دوران لندن کی کنگسٹن کراؤن کو بتایا گیا کہ ملزم الطاف نے اپنے پارٹی ورکروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا ہے اور پارٹی ورکرز اس ‘جہاد’ میں زندگیاں قربان کرنے کے لیے گھروں سے نکل آئیں۔ تاہم عدالت میں موجود الطاف حسین نے ان تمام الزامات کی تردید کی۔

کیس کی سماعت کے دوران ایک تفتیشی افسر نے جیوری کے سامنے گواہی بھی دی اور کورٹ کو بتایا کہ ملزم الطاف حسین کے لندن کے علاقے مل ہلز میں واقع گھر اور ایجویئر روڈ پر واقع ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپے کے دوران انہیں الطاف حسین کی اپنے کارکنوں کے خطابات کی ریکارڈنگ اور نوٹس ملے۔

جیوری کے سامنے الطاف حسین کی دو متنازع تقاریر کا متن پڑھ کر سنایا گیا جو استغاثہ کے مطابق وہ تقاریر ہیں جن کے ذریعے الطاف حسین نے مبینہ طور پر لوگوں کو تشدد پر اکسایا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے ان تقاریر میں پاکستانی فوج کو ‘پنجابی فوج’ اور ‘کرائے کی فوج’ کہہ کر پکارا۔

الزام کے مطابق الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو اپنے پارٹی کے سیکٹر کمانڈرز سے خطاب میں کہا کہ وہ دو لاکھ سے پانچ لاکھ افراد کو کراچی پریس کلب کے باہر جمع کر کے وہاں سے رینجرز کے دفتر پر دھاوا بولیں۔استغاثہ نے الزام عائد کیا کہ الطاف حسین نے اپنے ورکروں کو ہدایت کی کہ وہ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل کو پکڑ کر اسے گدھے پر بٹھا کر پورے شہر میں پریڈ کرائیں۔

جیوری کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے اپنے پارٹی ورکرز سے کہا کہ وہ رینجرز کے ہیڈ کوارٹر پہنچنے کے بعد نجی ٹی وی چینلز، آے آر وائی، جیو اور سما کے دفاتر میں جا کر ان کی نشریات کو بند کرا دیں۔ الطاف حسین نے اپنے پارٹی ورکرز سے کہا کہ وہ اپنے طور پر کراچی پریس کلب پہنچیں کیونکہ پارٹی کے پاس انھیں ٹرانسپورٹ مہیا کرنے کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔

اہنے پیغام میں الطاف حسین نے دعویٰ کیا کہ سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل بلال اکبر نے ایم کیو ایم کو قربانی کی کھالیں اور فطرانہ لینے سے روک کر پارٹی کے فنڈز ختم کر دیے ہیں۔ جیوری کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے اپنے کارکنوں سے اپنے خطاب میں کہا کہ فوج کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے جبکہ پاکستانی فوج مہاجروں کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔

ضمیر مطمئن ہو تو ریٹائرمنٹ پر سکیورٹی نہیں مانگنا پڑتی

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی دوسرے جرنیلوں کی طرح جھوٹے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی فوج انسانوں پر نہیں بلکہ شیطانوں پر مشتمل ہے۔الطاف نے مذید کہا کہ سپریم کورٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا لیکن صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

القاعدہ کے رہنما جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھروں سے پکڑے جا رہے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ تمام جماعتیں مہاجروں کے مخالف ہیں۔ کسی جماعت نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں ایم کیو ایم سے اظہار یکجہتی کا اظہار نہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ الطاف حسین نے اورنگی اور دوسرے سیکٹرز میں اپنے ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاکھوں لوگوں کو رینجرز کے ہیڈ کوارٹرز میں گھسا دیں خواہ اس کے لیے آپ کو سو، دو سو یا پانچ سو افراد کی بھی قربانی دینی پڑے تو اس کے لیے تیار رہیں۔ الطاف کی اس تقریر کو آدھے گھنٹے سے زیادہ عدالت میں چلایا گیا جس کی بنیاد پر انکے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔

اس تقریر میں الطاف کو یہ الزام لگاتے سنا گیا کہ ‘پاکستان دنیا کے لیے ناسور بن چکا ہے، اور یہ دہشتگردی کا منبع ہے۔’ اس کے بعد ایم کیو ایم کے ورکرز کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو ‘پاکستان مردہ باد’، ‘نواز شریف مردہ باد ‘ اور ‘پرویز رشید مردہ باد’ اور جیئے مہاجر’ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔

جیوری کو ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار اور الطاف حسین کے مابین بات چیت کے بارے میں بتایا گیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو حکومت کے ساتھ ہونے والے روابط کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اس شرط پر ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں آنے کے لیے تیار ہیں کہ ان کے آنے پر اس کیمپ کو ختم کر دیا جائے گا۔

فاروق ستار نے الطاف کو بتایا کہ جب پرویز رشید کو بتایا گیا کہ مطالبات تسلیم ہونے تک بھوک ہڑتالی کیمپ جاری رہے گا تو پرویز رشید نے ہڑتالی کیمپ آنے سے معذرت کر لی۔ اپنی طویل تقریر میں الطاف حسین نے کئی بار کہا کہ وہ پارٹی کو چھوڑ دیں گے۔ جواب میں پاکستان میں موجود ایم کیو ایم ورکرز الطاف کی منت سماجت کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں: ‘بھائی آپ کے سوا ہمارا کون ہے، ہمیں چھوڑ کر مت جائیں، ہم آپ کے بغیر بے سہارا ہو جائیں گے۔’

عدالت کو بتایا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق ڈاکٹر فاروق ستار نے الطاف حسین کو بتایا کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے انھیں بتایا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف آپ سے بات کریں گے، لیکن وہ کب بات کریں اس کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں کرائی ہے۔ الطاف حسین کی تقریر ابھی جیوری کو سنائی جا رہی تھی کہ عدالت کا وقت ختم ہو گیا۔ مقدمے کی کارروائی اگلے روز بھی جاری رہے گی۔

Related Articles

Back to top button