چیف جسٹس گلزار کو ریٹائرمنٹ کے بعد سکیورٹی کیوں ملی؟

معلوم ہوا ہے کہ حال ہی میں بطور چیف جسٹس پاکستان ریٹائر ہونے والے جسٹس گلزار احمد نے اپنی فراغت سے چند روز پہلے ہی وزارت داخلہ سے اضافی فول پروف سکیورٹی مانگ لی تھی اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ انہوں نے بطور جج ایسے فیصلے دئیے ہیں جن کی بنا پر ان کو خطرات لاحق ہیں لہذا انہیں ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی پولیس اور رینجرز کی اضافی سکیورٹی فراہم کی جائے۔ وزارت داخلہ نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے گلزار اور ان کے اہل خانہ کو پولیس اور رینجرز کی اضافی سکیورٹی فراہم کر دی ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اپنے دور میں جسٹس گلزار نے نہایت تابعداری سے اسٹیبلشمنٹ کی نوکری کی اور ایسا کوئی ایک فیصلہ نہیں دیا جس سے ان کی جان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اس لئے ان کا یہ مطالبہ ششکے کے علاوہ اور کچھ نہیں جسے وزارت داخلہ نے بلا چوں چرا تسلیم کرلیا ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ جسٹس گلزار نے ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل بذریعہ رجسٹرار وزارت داخلہ کو اضافی فول پروف سکیورٹی کے لیے خط لکھا تھا۔ گلزار احمد دو فروری کو ریٹائر ہوئے جس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ سنبھالا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد مراعات تو میسر ہوتی ہیں لیکن سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے وزارت داخلہ کو لکھے گئے مراسلے میں موقف اپنایا تھا کہ انہوں نے دہشت گردی اور ماورائے عدالت قتل سمیت کئی ہائی پروفائل مقدمات کے فیصلے کیے ہیں۔

اس کے علاوہ اقلیتوں کے حقوق، تجاوزات سمیت کئی حساس مقدمات کے فیصلے بھی کیے، اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں مکان اور سفر کے دوران وسیع تر قومی و عوامی مفاد میں پولیس اور رینجرز کی فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے۔ خط میں کہا گیا کہ بطور سابق چیف جسٹس انکی اور انکے اہل خانہ کی پہلے والی سکیورٹی برقرار رکھی جائے۔

ان کا یہ مطالبہ تسلیم تو کر لیا گیا ہے لیکن سلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے سابق چیف جسٹس کو حاضر سروس جج جتنی سکیورٹی فراہم کرنے کے فیصلے کو ایک ’غلط روایت‘ قرار دیا ہے۔ جسٹس گلزار کے دور میں اپنی برطرفی کے خلاف اپیل کے فیصلے کا انتظار کرنے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ آج گلزار احمد کو حاضر سروس چیف جسٹس جتنی سکیورٹی دی گئی تو آئندہ کے لیے مثال بن جائے گی، اس طرح تو ریٹائرڈ چیف جسٹس حکومت کو بہت مہنگے پڑیں گے اور یہ عمل قومی خزانے پر اضافی بوجھ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ عام حالات میں ہر جج کو ایک جبکہ سابق چیف جسٹس کو تین سرکاری اہلکار دیے جاتے ہیں۔ گلزار صاحب نے تو اتنے سخت اور حساس فیصلے بھی نہیں کیے اور نہ ہی کسی ادارے سے ٹکر لی پھر انہیں کس کی طرف سے جان کا خطرہ ہے۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے دوران سروس ہی فل کورٹ کے ذریعے اپنے لیے بعد از ریٹائرمنٹ اضافی مراعات منظور کروا لی تھیں، جن میں تنخواہ کا 85 فیصد بطور پینشن دینے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔ اسکے علاوہ انہوں نے ایک ایڈیشنل پرائیویٹ سیکرٹری کی فراہمی کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

دوسری جانب اپنے دور میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2018 میں تمام وی آئی پی شخصیات، جن میں ریٹائرڈ افسران، سیاسی شخصیات اور ماتحت عدالتوں کے جج شامل تھے، سے پولیس سکیورٹی واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے قومی خزانے کو ایک ارب 38 کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔

کیا کپتان چین سے تین ارب ڈالرز کا قرض لے پائیں گے؟

اسی طرح فروری 2021 میں جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ نے بھی اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد چیئرمین براڈ شیٹ کمیشن سربراہ کی حیثیت سے تعیناتی پر اضافی سکیورٹی کی درخواست کی تھی، جسے منظور کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن کے جاری کردہ خط میں لکھا گیا تھا کہ سابق سپریم کورٹ جج کو دو پولیس گاڑیاں فراہم کی جائیں، جن میں سے ایک جیمر گاڑی ہوگی جس میں دو گن مین ہوں گے جبکہ دوسری گاڑی میں چار مسلح پولیس اہلکار ہوں گے۔

اسی طرح ماضی میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد وزارت داخلہ میں درخواست دی تھی کہ انہیں سکیورٹی خدشات لاحق ہیں اس لیے انہیں بلٹ پروف گاڑی فراہم کی جائے۔ سابق چیف جسٹس افتخار کے خط میں موقف یہ تھا کہ انہیں دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اس لیے انہیں بلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے، جس کے بعد کابینہ ڈویژن نے انہیں وزارت داخلہ کے کہنے پر بلٹ پروف گاڑی مہیا کر دی۔

تاہم مارچ 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سرکاری بلٹ پروف گاڑی رکھنے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ریٹائر جج صرف آرڈر 1999 کے تحت ریٹائرمنٹ کی مختص کردہ مراعات ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ وزارت قانون کے حکام کے مطابق 2014 میں فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس آغا رفیق نے بھی اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد مرسڈیز واپس نہیں دی تھی۔

اس سے قبل انہوں نے حکومت سے گاڑی رکھنے کی اجازت طلب کی تھی لیکن منظوری نہ ہونے پر فل کورٹ اجلاس میں آرڈر پاس کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس مرسڈیز جبکہ باقی جج 1800 سی سی سرکاری گاڑیاں لیں گے۔ جس کے بعد اس وقت کے سیکرٹری قانون گاڑی واپس لینے کے لیے معاملہ حکومت کے علم میں لائے تھے۔

ایک سرکاری دستاویز کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ اب بھی 14 ہاؤس گارڈز اور گن مین دیوٹی دیتے ہیں جبکہ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے پاس ڈرائیوراور گن مین سمیت چار اہلکار ہیں۔

اسی طرح سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے پاس صرف ایک ڈرائیور، سابق چیف جسٹس چیف جسٹس ناصر الملک کے پاس تین پولیس اہلکار، سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان نواز عباسی کے پاس تین پولیس گارڈ جبکہ اس کے علاوہ باقی ریٹائرڈ ججوں کے پاس ایک سرکاری ڈرائیور/گن مین ہے۔ صدارتی آرڈر 1997 کے مطابق ریٹائر جج کو تنخواہ کا 85 فیصد پینشن کے طور پر ملتا ہے۔

اس کے علاوہ گیٹ پر 24 گھنٹے ڈیوٹی دینے والا سکیورٹی محافظ بھی ریٹائر جج کو میسر ہو گا۔ ریٹائر ججز کو کم قیمت پر 1800 سی سی سرکاری گاڑی خریدنے کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ دیگر مراعات میں تین ہزار فون کے بل کی مد میں، دو ہزار بجلی کے ماہانہ یونٹس، 25 ہیکٹو میٹرز یونٹس ماہانہ گیس کی فراہمی، 300 لیٹر ماہانہ پیٹرول اور پانی کی مفت فراہمی شامل ہے۔

Related Articles

Back to top button