جامعہ حقانیہ، جہاں روزانہ ایک لاکھ روپے کا لنگر پکتا ہے

دیوبندی مسلک کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کے باورچی خانے میں روزانہ مدرسے کے طلبہ کے لیے تین سو گرام وزن کی چھ ہزارروٹیاں اور پانچ من سالن بنتا ہے۔

روٹی سالن کا یومیہ خرچہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔

جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے کچن کے منتظم مولانا شوکت علی حقانی کے مطابق مدرسے کے لیے باورچی خانے میں روٹی کا بندوبست کرنے کا تندور والے کو ٹھیکہ دیا ہوا ہے۔ وہ مدرسے کو روزانہ 300 گرام وزن کی چھ ہزار تک روٹیاں فراہم کرتا ہے۔ان کے مطابق سالن کا انتظام مدرسہ خود کرتا ہے جس کے لیے روزانہ بڑے پانچ پتیلے تیار کیے جاتے ہیں۔ جن میں 120 کلو آلو اور 80 کلوگرام گوشت پکایا جاتا ہےاور دن میں دو من چنے یا لوبیے 54 کلو گھی اور پانچ کلو مصالحے میں تیار کیا جاتا ہے اور اس طرح سبزی بھی تیار کی جاتی ہے۔

بقول مولانا حقانی ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کے لیے لنگر کا کارڈ بنایا گیا ہے جس کا اندراج لنگر میں ہوتا ہے۔ مدرسے کی جانب سے طلبہ کے لئے دوپہر اور شام کے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے اور مدرسے میں مقیم طلبہ کو مفت دیا جاتا ہے انہوں نے بتایا کہ لنگر کا خرچہ ماہانہ 31 لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ افغان جنگ میں مکزی کردار ادا کرنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی اور دیگر طالبان کمانڈرز جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ جلال حقانی افغانستان کے وزیر داخلہ بن چکے ہیں۔ جامعہ حقانیہ ضلع نوشہرہ کے علاقہ اکوڑہ خٹک مین جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ راولپنڈی میں دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو پر خود کش حملہ کرنے والے بمباروں نے بھی ابھی اسی مدرسے میں قیام کیا تھا۔ اپنے قتل سے پہلے تک مولانا سمیع الحق مدرسے کے روح رواں تھے۔ سابق سینیٹر سمیع الحق کے صاحبزادے اور مدرسہ حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا حامدالحق حقانی کے مطابق جامعہ دارالعلوم حقانیہ کی مستقل بنیاد ہمارے دادا شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے پاکستان آزاد ہونے کے چند دن بعد 1947 میں رکھی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے ہمارے دادا نے اکوڑہ خٹک کے مین بازار میں واقع ایک مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ بعد میں میں اکوڑہ خٹک کے کچھ لوگوں نے زمین وقف کی اور کچھ مولانا عبدالحق نے لوگوں کے ہمراہ چندہ کر کے زمین خریدی اور یہ مسجد جی ٹی روڈ شاہراہ پاکستان پر منتقل کر دی گئی جو بعد میں پھیلتے پھیلتے ایک اسلامی یونیورسٹی کی شکل اختیار کر گئی اور اب یہ اسلامی یونیورسٹی ڈیڑھ سو کنال کے قریب رقبے پر آباد ہے۔

مولانا حامدالحق کا کہنا ہے کہ مدرسے میں چھوٹے بڑے طلبا و وطالبات، بنات کے شعبہ اورسکول کے طلبہ کل ملا کر پانچ ہزار تک طلبا اس وقت پڑھ رہے ہیں۔ جس میں تین ہزار تک ہاسٹل میں رہتے ہیں اورتقریباً دو ہزار طلبا و طالبات مختلف علاقوں کو اور اکوڑہ خٹک کے شہر میں واپس چلے جاتے ہیں۔ مولانا حقانی کے مطابق طلبہ کی رہائش کے لیے ہاسٹل کی عمارت بنائے گئی ہے۔ لنگر کا انتظام، اساتذہ اور انتظامیہ کی تنخواہیں بجلی، سوئی گیس اور مدرسے کے سارے اخراجات جو کروڑوں میں ہیں، وہ پاکستان کے عوام الناس پورے کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ طلبا میں صرف نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں ہوتے بلکہ کئی بڑے اور اچھے اچھے خاندانی اور امراء کی اولادیں بھی جامعہ میں داخلہ لیتی ہیں۔ جو ایم ایس سی، ڈاکٹریٹ اورانجینئرنگ کی ڈگریاں لینے کے بعد دینی تعلیم کے لیے یہاں آتے ہیں جس کو ہم پشتو میں چنڑے کہتے ہیں۔

پاکستان میں پہلا روزہ کس تاریخ کو ہوگا

یہ لوگ ادنیٰ طالب علم بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر یا انجینئر ادنیٰ درجہ اختیار کرکے درجہ اولیٰ میں بیٹھ جاتے ہیں اور یہاں پر آٹھ یا دس سال مفتی بننے تک ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ مولانا حامدالحق نے کہا کہ دارلعلوم حقانیہ سے پاکستان کی سطح پر سب سے زیادہ معروف میرے والد سابق سینیٹر اور مدرسے کے سابق مہتمم مولانا سمیع الحق تھے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح کے رہنماؤں میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے جلال الدین حقانی بھی اسی مدرسے سے فارغ التحصیل تھے اور یہاں استاد تھے۔ مولانا یونس خالص جو کہ افغانستان کے عبوری صدر بھی رہے تھے، وہ بھی اسی مدرسے کے طالب علم تھے جب کہ پاکستانی سیاست کی ایک اہم شخصیت مولانا فضل الرحمن بھی دارالعلوم حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ مولانا حامدالحق کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کی صوبوں اور مرکزی انتظامیہ میں کئی علما شامل ہیں جو حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں جو حکومتی سطح پر امارات اسلامی میں مختلف خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

Haqqani University where one lakh rupees is cooked daily

Related Articles

Back to top button