فیصل واوڈا کی فراغت عمران کے لیے بڑا جھٹکا کیوں ہے؟

عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل واوڈا کی بطور سینیٹر نااہلی وزیراعظم کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دی جا رہی ہے چونکہ وہ واوڈا کو بچانے کے لیے آخری حد تک گے اور جب بطور رکن قومی اسمبلی انکی سیٹ خطرے میں پڑ گئی تو انہیں سینٹ کا رکن بنا دیا تھا۔ تاہم کپتان کا یہ نسخہ کارگر ثابت نہ ہوا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بالآخر 9 فروری کو فیصل واوڈا کو جھوٹا بیان حلفی فائل کرنے کی پاداش میں نااہل قرار دے دیا۔

فیصل واوڈا تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان کے نہایت قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں۔ دونوں کے قریبی تعلق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے واوڈا کو بچانے کے لئے اپنی سیاسی ساکھ تک داؤ پر لگا دی اور انہیں بچانے کے لئے نہ صرف حکومتی اثر رسوخ استعمال کیا بلکہ خفیہ اداروں کی جانب سے بھی بھی عدالتوں اور الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ فیصل وواڈا اپنے باس عمران خان کے علاوہ سابق آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید کے بھی کافی قریب تھے اور انہی کی مدد سے پچھلے کئی سالوں سے سے اپنی نااہلی کے فیصلے کو کو التوا میں ڈلواتے چکے آ ریے تھے۔

لندن میں اربوں روپے مالیت کی خفیہ جائیدادیں ہونے کے الزامات اور کراچی سے دیگر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی مخالفت کے باوجود عمران خان نے اپنے ذاتی تعلق کی وجہ سے واوڈا خو وفاقی کابینہ میں اہم وزارت بھی دیے رکھی۔ وفاقی کابینہ میں پارٹی موقف کے خلاف بولنے والوں کے خلاف فیصل واوڈا کھل کر اظہار خیال کرتے اور وزیر اعظم کی موجودگی میں غصے کا اظہار بھی کرتے تھے۔

اس پر بھی وزیر اعظم کی جانب سے انھیں کبھی کسی روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ گزشتہ سال مارچ میں جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں واوڈا کی بحیثیت رکن قومی اسمبلی نا اہلی یقینی نظر آنے لگی تو عمران نے اپنے لاڈلے کو قومی اسمبلی سے مستعفی کروا کر سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا اور سندھ سے سینیٹر منتخب کروا لیا۔ چنانچہ یہ سوال بارہا پوچھا گیا کہ فیصل واوڈا آخر عمران خان کے لیے اتنے ناگزیر کیوں ہیں؟

اس حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’فیصل واوڈا کی نااہلی سے بظاہر تحریک انصاف اور عمران خان دونوں کو نقصان پہنچا ہے اور پی ٹی آئی کمزور ہوئی ہے۔ لیکن فیصل واوڈا پی ٹی آئی کے لیے ناگزیر کیوں ہیں اس کا جواب تو عمران کو دینا چاہیے، جنھوں نے جب دیکھا کہ فیصل واوڈا نا اہل ہو جائیں گے انھیں اسمبلی سے استعفیٰ دلوا کر سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’فیصل واوڈا کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے سے ایک تو پی ٹی آئی کراچی سے فیصل واوڈا کی سیٹ ہار گئی اور اب اگر سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تو سینیٹ کی سیٹ بھی جائے گی۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہے کہ واوڈا عمران کے لیے ناگزیر ہیں لیکن وہ کیا ہے، اس کا جواب صرف عمران خان ہی دے سکتے ہیں اور انھیں جواب دینا چاہیے۔‘

عدالتی فیصلہ صدارتی نظام کے حمایتیوں کے لیے جھٹکا

دوسری جانب تحریک انصاف کے حامی سمجھے جانے والے سینیئر صحافی کامران خان نے بھی اپنے ٹویٹ میں اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے انھیں عمران خان کا چہیتا قرار دیا۔ تاہم نا اہلی کے فیصلے پر پی ٹی کی جانب سے ردعمل نہ آنے پر انھوں نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’غیر متوقع نہیں مگر مزیدار بات ہے کہ عمران خان صاحب کے چہیتے فیصل واوڈا آج تاحیات سیاست سے نا اہل قرار پائے ساتھ ہی پی ٹی آئی کی سینیٹ سیٹ لے ڈوبے مگر کسی قابل ذکر شخصیت نے نہ فیصلے کی مذمت نہ واوڈا سے ہمدردی کی دو لفظ بولے۔

عمران خان نے بھی چپ سادھ لی حتٰی کہ واوڈا کے چہیتے میڈیا کو بھی ہمدردی نہیں۔‘ تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ سب کو معلوم تھا لہذا اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور انشاءاللہ ریلیف ملے گی۔

یاد رہے کہ فیصل واوڈا نے عام انتخابات 2019 میں این اے 249 سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو صرف 600 ووٹوں کی برتری سے ہرایا تھا لہذا یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس حلقے میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ بعد ازاں انکشاف ہوا تھا کہ واوڈا نے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت دوہری شہریت کو چھپایا تھا۔

اس سے قبل 23 مارچ 2013 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے دوہری شہریت پر نااہل قرار دیے جانے والے سابق ارکان پارلیمان کی فہرست جاری کی گئی۔ جس کے مطابق قومی اسمبلی سے تعلق رکھنے والے پانچ، سندھ اسمبلی سے تعلق رکھنے والے دو اور پنجاب اسمبلی کے پانچ ارکان کو نااہل قرار دیا گیا تھا۔ 2018 کے اوائل اور الیکشن سے قبل دوہری شہریت کا معاملہ دوبارہ موضوع بحث بنا تو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا اور 17 اکتوبر 2018 کو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہارون اختر اور سینیٹر سعدیہ عباسی کو نااہل قرار دے دیا تھا۔

ان تمام اقدامات پر تحریک انصاف نہ صرف خوش بلکہ اسے انصاف کی فتح قرار دیتی رہی ہے لیکن فیصل واوڈا کے معاملے پر پی ٹی آئی اور عمران خان کا رویہ اپنے اصولی موقف کے ہمیشہ برعکس رہا ہے۔ تاہم اب بدلتی ہوئی سیاسی فضا میں الیکشن کمیشن اور عدالتیں بھی آزادی سے فیصلے دینے لگے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن میں دائر کردہ اکبر ایس بابر کی فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی جلد ہی آجائے گا۔

Related Articles

Back to top button