عمران بھی نوازشریف کی طرح صادق اورامین کیوں نہیں رہے؟

تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ آنے کے بعد اب یہ استدلال دیا جا رہا ہے کہ عمران خان بھی نواز شریف کی طرح صادق اور امین نہیں رہے اور اب نواز شریف کی طرح ان کی نااہلی بھی یقینی ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اپنا اقامہ چھپانے کے الزام میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ آنے کے بعد اب عمران خان کے ‘صادق’ اور ‘امین’ ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ زیر بحث ہے کیونکہ فیصلے میں صاف لکھا گیا ہے کہ بطور پی ٹی آئی چیئرمین انہوں نے اپنی جماعت کے بینک اکاؤنٹس چھپائے جو کہ آئین کے تحت جرم ہے۔ چنانچہ یہ استدلال دیا جا رہا ہے کہ عمران خان بھی الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے پارٹی اکاؤنٹس چھپانے اور جھوٹا بیان حلفی داخل کرنے کی بنا پر صادق اور امین نہیں رہے لہذا ان کی نااہلی بھی یقینی ہے۔

یاد رہے کہ صادق اور امین ہونے کی شرط سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں متعارف کروائی گئی تھیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے 2018 میں وزیراعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا تھا جس کے بعد سے موصوف خود کو عدالتی سرٹیفائیڈ صادق اور امین قرار دیتے ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ‘صادق’ اور ‘امین’ عدلیہ کی نظرمیں کون ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہم سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کی مدد لیں گے جو کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دلوانے کے لیے دائر درخواستوں پر دیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے اپنے موقف کے حق میں آئین کی شق 62 (ایک) (ف) کا سہارا لیا تھا۔

حکومت عمران خان سے خوفزدہ، آج یا کل گر جائے گی

27 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف فیملی کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ ملکی تاریخ کے اس بڑے کیس کا حتمی فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے سنایا۔ فیصلے کے مطابق پانچوں ججوں نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ’کیپٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، لہذا نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، ججوں نے کہا کہ اس بنیاد پر ہم نواز شریف کو مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ عدالت جعلی ٹرسٹ ڈیڈ، جھوٹی دستاویزات اور بیان حلفی داخل کرانے کی صورت میں کارروائی کا حق رکھتی ہے۔ فیصلے میں چیف جسٹس کو یہ درخواست کی گئی کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو نامزد کریں، جو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے ساتھ نیب اور احتساب عدالت میں چلنے والے کیسوں کی نگرانی بھی کریں۔

یاد رہے کہ جسٹس عظمت سعید کا شمار پانچ میں سے ان تین ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جے آئی ٹی کے ذریعے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف شکایات کی تفتیش کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے فیصلے میں شق 62 کے بارے میں لکھا کہ اس شق کی بنیاد پر کسی کو پرکھنے سے پہلے اس ضمن میں کوئی عدالتی فیصلہ ہونا ضروری ہے۔ اسی تین رکنی بنچ کے ایک اور رکن جسٹس اعجاز افضل خان نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ شق کی موجودہ صورت میں ہر شخص کو اس وقت تک ذی فہم، پارسا، نیک، صادق اور امین سمجھا جائے گا جب تک اس ضمن میں اس کے خلاف کوئی عدالت فیصلہ نہیں دے دیتی۔ پانچ رکنی بنچ کے ایک رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے، جنہوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیا تھا، آئین کی شق 62 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ درست ہے کہ کسی امیدوار کی صداقت کا فیصلہ کرتے ہوئے کسی عدالت کی طرف سے اس ضمن میں فیصلہ موجود ہونا چاہیے۔ جسٹس کھوسہ نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے پاس نااہلی کے معاملے میں حقائق کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار ہے۔جسٹس گلزار احمد نے پاناما لیکس کے مقدمے میں لکھا کہ 18ویں ترمیم سے پہلے کسی بھی رکن پارلیمان کے خلاف شکایت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن 18ویں ترمیم کے بعد کسی کے خلاف عدالتی فیصلہ ہونے کی شرط شامل ہو گئی۔

وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خِانہ کے خلاف مقدمے میں یہ بھی معاملہ زیر بحث آیا کہ کیا سپریم کورٹ خود بھی ان کے خلاف الزامات پر فیصلہ دے سکتی ہے یا اس کے لیے معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیجا جائے گا۔ جسٹس عظمت سعید نے واضح کیا کہ عدالتیں قانون کی بنیاد پر کام کرتی ہیں اور اخلاقی سوالات ان کے دائرے سے باہر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شق 62 میں جب لفظ ‘صادق’ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے مراد قانونی لحاظ سے سچا ہونا ہے۔ یہ اخلاقیات کا سوال نہیں بلکہ اس صداقت کی قانونی حیثیت ہے۔ یہ ایک ‘آبجیکٹو’ تقاضا ہے نہ کہ ‘سبجیکٹو’۔ انھوں نے کہا کہ عدالتوں نے اس معاملے میں کبھی اخلاقی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلے میں اپنے ہی ایک پرانے فیصلہ (اسحاق خان خاکوانی بنام نواز شریف) کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ آئین میں صادق اور امین ہونے کے لیے اتنی سخت شرائط کیوں رکھی گئی اور ان پر عملدرآمد میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

جسٹس کھوسہ نے اپنے پرانے فیصلے میں لکھا ہے کہ کسی کے ذی فہم اور نیک اور پارسا ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے اس شخص کی پوری زندگی کا احاطہ کرنا اور اس کی ذہنی کیفیت سمجھنا ضروری ہے۔ کھوسہ نے لکھا کہ ‘صادق’ اور ‘آمین’ کی شرط تو ظاہر ہے پیغمبر اسلام کی صفات تھیں۔ انھوں نے کہا کہ آئین میں ان شرائط کا مطلب یہ یقینی بنانا تھا کہ بہترین صرف اچھے اور نیک مسلمان ہی اسمبلیوں تک پہنچیں اور وہ لوگ ریاست پاکستان میں اللہ کی حاکمیت ایک امانت کے طور پر نافذ کر سکیں۔ لیکن ملک کے آئین کو مثالی ہونے کی بجائے عملی ہونا چاہیے’، انھوں نے لکھا کہ اب پیغمبر آنا بند ہو گئے ہیں اور ہمارے سامنے صرف گناہ گار انسان ہی موجود ہیں۔ ایسے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ ان گنہگار انسانوں کی لسٹ میں عمران خان کا نام بھی شامل ہو پاتا ہے یا نہیں؟

Related Articles

Back to top button