عمران پر قاتلانہ حملے کا چورن کیوں پیش کیا گیا؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ میں جنگوں میں مغلوب ہوئے قیدیوں کی طرح ہاتھ اٹھا کر اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ عمران خان اور ان کے حامیوں کو میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے اپنا سودا خوب بیچنا آتا ہے۔ کرکٹ سے شہرت کمالینے کے بعد ان کی کرشماتی شخصیت لاہور میں اپنی والدہ کے نام پر کینسر کے علاج کے لئے چندہ جمع کرنے کی حیران کن حد تک منظم مہم کے لئے استعمال ہوئی۔ اس کی بدولت نیک تمنائوں کا سمندر جمع کرنے کے بعد سیاست میں آئے تو اپنے تمام مخالفین کو ”چور اور لٹیرے“ ثابت کرنے کی لگن میں مصروف ہوگئے۔ جسٹس ثاقب نثار کے زیر سایہ سپریم کورٹ نے انہیں وطن عزیز کا یک و تنہا ”صادق اور امین“ بھی قرار دے دیا تھا۔ جولائی 2018ء کے الیکشن کے دوران وزارت عظمیٰ کی جانب ان کے سفر کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں بھی ہمارے ریاستی اداروں نے دیدہ دلیری سے ہٹا دیں اور راستہ مکمل صاف کر دیا۔ اس کے باوجود خان صاحب فوج کے عطا کردہ ”اتحادیوں“ کی مدد سے حکومت بنانے کو مجبور ہوئے۔ بعدازاں بتدریج ان کی حمایت سے محروم ہوئے تو تحریک عدم اعتماد نے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا۔

امریکی CIA کا جاسوس ڈاکٹر 10 برس سے پاکستانی قید میں

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ جوڑ توڑ کی روایتی سیاست کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد عمران نے پاکستانیوں کی کثیر تعداد کو یہ تسلیم کرنے پر مائل کردیا ہے کہ قومی غیرت وحمیت کو ہر صورت زندہ رکھنے کے خواہاں ”غیرت مند مسلمان“ کو درحقیقت امریکی سامراج نے سازش کے ذریعے ہٹایا ہے۔غیر ملکی سازش مگر ان کے ”چور اور لٹیرے“ سیاسی مخالفین کے تعاون ہی سے کامیاب نہیں ہوئی۔ ہمارے طاقت ور ریاستی اداروں میں براجمان ”میر جعفروں“ نے بھی اسے کامیاب کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے ہیں۔روایتی اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال سے لوگوں سے رابطہ استوار کرنے کے تمام تر ذرائع کو کمال مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اپنا موقف شدت سے دہرائے چلے جارہے ہیں۔ ان کے غضب کی زد میں آئے افراد اور ادارے گھبرائے ہوئے ہیں۔ دشمنوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینے کے باوجود عمران خان اور ان کے حامی بے پناہ ظلم کے طوفان میں گھرے مظلوم ہی نظر آ رہے ہیں۔

ملتان میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کے بعد عمران خان تقریباًدو ہفتے قبل پشاور چلے گئے۔ 25 مئی کو وہاں سے صوبائی حکومت کے تمام تر وسائل کی چھائوں تلے اسلام آباد تشریف لائے۔ یہاں کے ڈی چوک کے بہت قریب پہنچ جانے کے باوجود مگر وہاں نئے انتخاب کی تاریخ لینے کے لئے دھرنا دینے کے بجائے 26 تاریخ کی صبح ایک دھواں دھار تقریر فرما کر پشاور لوٹ گئے کیونکہ اتنی کثیر تعداد میں لوگ ان کے ساتھ نہیں نکل پائے تھے کہ وہ ڈی چوک میں دھرنا دینے کے قابل ہوتے ۔ پشاور پہنچنے کے بعد خان صاحب اپنی خفت مٹانے کے لیے بونیر اور دیر وغیرہ میں عوامی اجتماعات سے خطاب فرماتے رہے اور بتاتے رہے کہ میں ایک دو روز میں اگلے لانگ مارچ کی تاریخ دینے والا ہوں۔ اب موصوف صرف پشاور میں دو ہفتے کے قیام کے بعد بنی گالا واپس لوٹ چکے ہیں اور افواہیں گرم ہیں کہ شاید انہیں گرفتار کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔

نصرت جاوید کے بقول عمران خان صاحب کو فی الفور نئے انتخاب درکار ہیں۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو محض خیبر پختونخوا تک محدود نہ رکھیں۔ انہیں چاہیئے کہ وہ پاکستان کے دیگر شہروں خاص کر پنجاب کے بڑے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں عوامی اجتماعات منعقد کرتے ہوئے نئے لانگ مارچ کی تیاری کریں۔ پشاور میں مسلسل پڑائو کے منفی اثرات کو بخوبی بھاپنتے ہوئے بالآخر وہ اسلام آباد لوٹ چکے ہیں لیکن اس سے قبل پشاور سے اپنی ”راہداری ضمانت“ بھی کروا چکے ہیں۔ اس ضمانت کے ہوتے ہوئے رانا ثناءاللہ کے ایماپر اگر انہیں اسلام آباد کی پولیس نے گرفتار کرنے کی حماقت برتی تو عدالتوں کے ہاتھوں رسوا ہی ہوگی۔ راوی کو عمران خان کے لئے بنی گالہ میں لہٰذا چین ہی چین لکھا نظر آرہا ہے۔ گزرے ہفتے کی شام مگر خان صاحب کے ایک جانثار بابر اعوان نے خطرے کی گھنٹی بجاتا ویڈیو پیغام ریکارڈ کروادیا جس کے ذریعے انہوں نے نہایت فکرمندی سے سابق وزیر اعظم کی جان کو لاحق سازش سے آگاہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش کے ارد گرد ”وردی“ پہنے چند افراد مشکوک انداز میں متحرک نظر آئے ہیں۔ لیکن ”وردی“ کس محکمے کی تھی اس کی بابت البتہ انہوں نے آگاہ نہیں کیا۔ لیکن نصرت کے بقول ”سازش“ کے ذریعے قتل کرنے کے خواہاں افراد اپنے ہدف کے حصول کے لئے ”وردی“ پہنچے سے گریز کرتے ہیں۔ ”وردی“ پہن کر ممکنہ جائے وقوعہ کے گرد اپنے ”شکار“ کی آمد سے قبل لوگوں کی نگاہ میں آنے کے مرتکب نہیں ہوتے۔

نصرت بتاتے ہیں کہ چند ہی گھنٹوں میں بابر اعوان کا بنایا ویڈیو سوشل میڈیا پر وال ہوگیا۔ چند ٹی وی چینلز نے اس کا حوالہ دیتے ہوئے دہائی مچانا شروع کردی۔ایمان داری کی بات ہے کہ میں خود بھی گھبرا گیا۔ چند روز قبل میرے ایک مہربان دوست نے جو سرکاری افسر رہے ہیں، مجھے ”اطلاع“ دی تھی کہ حکومت نے عمران خان کو گرفتار کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ اگرچہ گفتگو میرے اور ان کے درمیان تھی لیکن میں نے نہایت خلوص سے برجستہ اس رائے کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف کے رہنما کو گرفتار کرنا ”سنگین ترین حماقت“ ہوگی۔ بابر اعوان تو ارادہ قتل کا ذکر رہے تھے جو گرفتاری سے کہیں زیادہ پریشان کن واقعہ ہوسکتا ہے۔

لیکن بقول نصرت، بابر اعوان نے جن خدشات کا اظہار کیا وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا تو اس کے نیچے تبصروں کا سیلاب برپا ہو گیا۔ خا کے حمایتیوں کی اکثریت نے حکومت کو ”خبردار“ کیا کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ”سرخ لکیر“ عبور کرلینے کے مترادف ہوگا اور اگر خدانخواستہ ایسا حملہ کامیاب ہوگیا تو ملک میں عمران دشمنوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ ایسے میں ”ادارے“ بھی عوامی غضب کی تپش سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ جو سازش مبینہ طور پر سوچی گئی اسے بابر اعوان کے بقول ”آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں“ بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ لیکن اب وہ 48 گھنٹے گزر چکے ہیں اور خان صاحب ماشاءاللہ خیریت سے ہیں۔ ایسے میں بابر اعوان سے پوچھنا بنتا ہے کہ انہیں قاتلانہ حملے کی جھوٹی اطلاع کس نے اور کیوں دی تھی؟

Related Articles

Back to top button