کیا بریگیڈیئر عباسی شہباز شریف کو سزا دلوا پائیں گے؟

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف وزیر اعظم عمران خان کے اعصاب پر کس بری طرح سوار ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے نئے مشیر احتساب بریگیڈیئر ریٹائرڈ مصدق عباسی کو جو پہلی ذمہ داری سونپی ہے وہ شہباز شریف کو منی لانڈرنگ اور کرپشن کیسز میں سزا دلوانا ہے، چنانچہ شہزاد اکبر کی جگہ لینے والے نئے مشیر احتساب چارج سنبھالنے کے بعد سے نیب اور ایف آئی اے کے لاہور دفاتر میں دن رات عرق ریزی میں مصروف ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنا ٹاسک کس طرح پورا کر سکتے ہیں؟
یاد رہے کہ وزیراعظم کی جانب سے اپنے شہزاد اکبر کو ہٹائے جانے کی بنیادی وجہ بھی یہی بتائی گئی تھی کہ وہ شہباز شریف اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کو نیب کیسز میں سزائیں دلوانے میں ناکام رہے تھے۔ شہزاد اکبر نے زبانی کلامی تو شہباز شریف کو کرپٹ بھی ثابت کردیا اور دو مرتبہ نیب حوالات میں بند بھی کروایا لیکن عملی طور پر وہ ان پر عائد کردہ الزامات ثابت کرنے اور انہیں سزا دلوانے میں ناکام رہے۔
کچھ ایسا ہی معاملہ نواز لیگ کے دیگر رہنماؤں خواجہ محمد آصف، سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کا بھی رہا جن پر الزامات تو لگائے گے اور انہیں گرفتار بھی کیا گیا لیکن عدالت میں ثابت کچھ نہ ہوا۔
شہزاد اکبر کے استعفے سے پہلے ہی یہ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ انہیں شہباز شریف کو سزا نہ دلوا سکنے کی پاداش میں گھر جانا پڑےگا کیونکہ وزیراعظم ان کی ناکامی پر سخت نالاں ہیں۔
باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر کی جگہ لینے والے بریگیڈیئر ریٹائرڈ مصدق عباسی مشیر احتساب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے لاہور میں ہی ڈیرے جمائے ہوئے ہیں اور وہ کام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جو شہزاد اکبر نہ کر پائے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ نیب اور ایف آئی اے کے دفاتر میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کیسز کی فائلیں کھنگال رہے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ شہباز شریف کے خلاف کیسز تیار کرنے والی نیب اور ایف آئی اے کی ٹیموں سے مسلسل بریفنگ لے رہے ہیں تاکہ تعین کیا جا سکے کہ غلطیاں کہاں ہوئیں اور کیسز کس نے اور کیسے خراب کیے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے اپوزیشن مخالف کرپشن کے الزامات کو سچا ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کم ازکم شہباز شریف کو تو سزا ہو ۔ اگر وزیر اعظم کی گذشتہ کچھ عرصے کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تنقید کا نشانہ بھی شہباز شریف ہی ہیں۔حال ہی میں صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات میں بھی وزیراعظم مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے کہ آپ کو شہباز شریف کی کرپشن کا اندازہ ہی نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ جس دن آپ پر شہباز کی کرپشن آشکار ہو گی، آپ نواز شریف کو بھول جائیں گے۔
آئی ایم ایف کا تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ
یاد رہے کہ نیب کی جانب سے شہباز شریف کے خلاف کئی کرپشن کیسز بنائے گئے تھے لیکن ان کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت نہ ہو پایا۔ بعد ازاں ایف آئی اے نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈر نگ کا مقدمہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ انہوں نے جعلی اکاونٹ بنا کر اربوں روپے بیرون ملک بھیجی۔ اس کیس میں شہباز اور حمزہ پر بینکوں میں اپنے ملازموں کے ناموں پر اکاونٹ کھولنے اور اربوں روپے باہر بھجوانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لیکن بینکنگ جرائم کورٹ کے ماہر وکیل ایڈووکیٹ عثمان اعوان سمجھتے ہیں کہ اس میں شہباز شریف کو سزا دلوانا تقریباً ناممکن ہے۔
کیس کا چالان جمع کروا دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس میں مزید تفتیش کی ضرورت نہیں رہی اور صرف ٹرائل ہونا ہے۔ لہذا عثمان کہتے ہیں کہ جب کیس کی تفتیش مکمل ہوچکی تو شہباز شریف یا حمزہ کی گرفتاری کا بھی کوئی امکان نہیں؟ ایف آئی اے کی پراسیکیوشن ٹیم پہلے ہی عدالت کو بتاچکی ہےکہ اس کیس میں ملوث تمام 16 بینک ملازمین کے خلاف مقدمہ ثابت نہیں ہو سکا اس لئے ان کے نام کیس سے نکال دئیے گئے ہیں۔ عثمان کے مطابق اب ایف آئی اے کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اس کیس میں شہباز شریف کے خلاف کوئی ایسا ثبوت عدالت میں لے کر آئے جو ان کو مجرم ثابت کر کے سزا کا حقدار بنا دے۔
ادھر شہباز شریف کے خلاف درج منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش کرنے والے ایف آئی اے افسران کو اچانک یکم فروری کو تبدیل کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ پہلی ٹیم شہزاد اکبر نے بنائی تھی جبکہ نئی ٹیم بریگیڈئیر عباسی نے بنائی ہے۔ لیکن ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور ریجن ڈاکٹر رضوان نے ڈی جی ایف آئی کو مطلع کیا ہے کہ ان افسران کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ انتہائی ہائی لیول کیسز کی تفتیش کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ تبادلوں کے آرڈر واپس نہیں ہوئے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو ٹاسک شہزاد اکبر پورا نہ کر سکے کیا بریگیڈیئر عباسی اسے مکمل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔