کیا چوہدری شجاعت بھی اپنے 10 اراکین ڈی سیٹ کروا لیں گے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے قاف لیگ کے دس ووٹ پرویز الہی کے حق میں شمار کرنے کے فیصلے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر بطور پارٹی صدر عمران خان کی طرح چودھری شجاعت نے بھی اپنے منحرفین اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کروانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنس بھیج دیا تو پرویز الٰہی کی وزارت اعلی کتنے دن برقرار رہ پائے گی۔
خیال رہے کہ عمران خان نے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈالنے والے اپنی جماعت کے 25 منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کے خلاف الیکشن کمیشن کو بطور پارٹی سربراہ ریفرنس بھیجا تھا جس کے نتیجے میں وہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کی روشنی میں ڈی سیٹ ہو گئے تھے اور پنجاب میں ضمنی الیکشن کروانا پڑ گے تھے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب اگر چوہدری شجاعت بطور پارٹی صدر اپنی ہدایات کے بر عکس پرویز الہی کو ووٹ دینے والے اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو ریفرنس لکھتے ہیں تو الیکشن کمیشن کے پاس ان اراکین کو فارغ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہو گا جس کے بعد قاف لیگ کے دس اراکین اسمبلی نااہل ہو جائیں گے اور حمزہ شہباز دوبارہ اکثریت حاصل کر کے وزیر اعلی بن سکتے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی منتخب ہونے کے بعد پرویزالہی کو اعتماد کا ووٹ دیتے وقت بھی ق لیگ کے اراکین اسمبلی چوہدری شجاعت کی ہدایات ماننے کے پابند ہونگے۔
خیال رہے کہ عمران نے جن 25 اراکین پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کروایا تھا انھوں نے نہ صرف پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ اپنے پارٹی سربراہ عمران خان کی ہدایات کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ چنانچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مئی 2022 میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف ریفرنس منظور کرتے ہوئے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا، لیکن تحریک انصاف کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی تاحیات نااہلی سے بچ گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔
کینیڈین گلوکار جسٹن بیبر کے چہرے کا فالج بگڑ گیا
الیکشن کمیشن کا فیصلہ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دیا گیا جو 17 مئی کو آیا تھا اور پہلے ہی متنازعہ قرار دیا جا چکا ہے۔ نا تو سپریم کورٹ نے اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے اور نہ ہی اس کے خلاف دائر کردہ اپیل پر سماعت شروع کی ہے۔
آرٹیکل 63 (اے) قانون سازوں کو ‘وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے سلسلے میں، یا اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ، یا منی بل یا آئینی (ترمیمی) بل پر’ پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ دینے یا پرہیز کرنے سے روکتا ہے۔ اس آرٹیکل کی تشریح میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ پارٹی کی ہدایت کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا اور انہیں نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت نے اس آرٹیکل کی تشریح کرنے کی بجائے آئین میں ترمیم کر دی جس کا اسے اختیار حاصل نہیں تھا۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں نے حمزہ شہباز کو اکثریت لینے میں مدد دی تھی، انہوں نے مجموعی طور پر 197 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 186 ووٹ درکار تھے۔ پی ٹی آئی کے اراکین پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کروانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست بھی کر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے دائر کی تھی۔ بطور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھی بھیجا تھا اور زور دیا تھا کہ ان قانون سازوں کو پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈال کر پی ٹی آئی سے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے جبکہ حریف امیدوار پرویز الہٰی کی جماعت مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی نے منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے ریفرنس میں منحراف اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کی درخواست کی تھی کیونکہ انہوں نے پارٹی لائن کے خلاف حمزہ شہباز کو ووٹ دیا ہے۔
پرویز الہٰی نے ریفرینس میں بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کی ہدایات کے خلاف 25 اراکین صوبائی اسمبلی نے حمزہ شہباز کو ووٹ کاسٹ کیا تھا، جس کے بعد ایم پی ایز کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا جبکہ منحرف اراکین نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
دوسری جانب منحرف اراکین کے وکیل خالد اسحٰق نے دلائل دیے تھے کہ منحرف اراکین کو یکم اپریل کے پارلیمانی پارٹی اجلاس کا دعوت نامہ ملا نہ ہی ایجنڈا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف 2 اراکین کو 7 اپریل کو شوکاز نوٹس ملا، اس کے علاوہ دیگر کسی بھی رکن کو کوئی نوٹس نہیں ملا۔ خالد اسحٰق نے کہا تھا کہ 18 اپریل کو انکے خلاف جو ڈیکلریشن بھجوایا گیا تھا اس کی کاپی بھی اراکین کو نہیں ملی اور اراکین کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں دیا گیا۔
وکیل خالد اسحٰق نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس سے متعلق بعد میں ایک جعلی دستاویز بنائی گئی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ اگر پارٹی صدر کی ہدایات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی نااہلی نہیں بنتی کیونکہ پرویز الہٰی کو ووٹ دینے اور ووٹنگ کے دن غیر حاضر نہ رہنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہی نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تو ارکان ووٹ دینے کے لیے آزاد تھے جبکہ پارٹی چیئرمین نے کہیں ہدایت نہیں کی کہ بائیکاٹ کی صورت میں مخالف امیدوار کو ووٹ نہیں دیا جائے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے پرویز الہی کا موقف سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں درست تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے 25 اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کردیا تھا۔ ایسے میں اگر چوہدری شجاعت حسین بھی عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی جماعت کے 10 منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجتے ہیں تو ان کا ڈی سیٹ ہونا بھی یقینی قرار دیا جا رہا ہے۔